کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 53
﴿فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِی مِنْ شِیعَتِہِ عَلَی الَّذِی مِنْ عَدُوِّہِ ﴾ [القصص:۱۵] ’’ تو ان (موسیٰ علیہ السلام ) سے اس بندے نے مدد طلب کی جو ان کی قوم سے تھا، اس شخص کے خلاف (مدد طلب کی) جو اُن کا دشمن تھا۔ ‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے مدد طلب کرنے کے بارے میں فرمایا: ﴿ فَاَعِینُونِی بِقُوَّۃٍ ﴾ [الکہف:۹۵] ’’ تو تم میری (افرادی) قوت کے ساتھ مدد کرو۔ ‘‘ اللہ الرحمن عرش پر بلند ہے: [1] متعدد آیات اور احادیث میں اللہ تعالیٰ کے بلند ہونے کا تذکرہ ہوا ہے۔ (۱) … اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ إِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہُ ﴾ [فاطر:۱۰] ’’ اسی کی طرف اچھے کلمات چڑھتے ہیں ، نیک اعمال کو وہ بلند کرتا ہے۔‘‘ اس آیت میں اللہ کی طرف کلمات کے چڑھنے سے ثابت ہوا کہ اللہ بلند ہے۔ (۲) … اللہ کا فرمان ہے: ﴿ مِنَ اللّٰہِ ذِی الْمَعَارِجِ o تَعْرُجُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوحُ إِلَیْہِ ﴾ [المعارج:۳،۴] ’’ بلندیوں والے، اللہ کی طرف سے، فرشتے اور جبریل اسی کی طرف چڑھتے ہیں ۔ ‘‘ (چڑھا اُسی کی طرف جاتا ہے جو بلند ہو۔) ذی المعارج کا مطلب بلندیوں والا ہے۔
[1] مسلمان فرقوں میں یہ بات خواہ مخواہ اختلافی بن گئی ہے کہ ان کا رب کہاں ہے؟ بعض کہتے ہیں وہ عرش پر بلند ہے۔ جیسا کہ مؤلف نے اسی صحیح عقیدے کے دلائل جمع کیے ہیں ، اور یہی سلف صالحین کا عقیدہ ہے۔ جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ اللہ ہرجائی ہے۔ بعض کے نزدیک وہ لامکاں ہے۔ اور بعض کا رب اُن کے دلوں میں رہتا ہے۔ اور بعض صوفیوں کے نزدیک اللہ ہر چیز میں ہے۔ یہی ہندوؤں کا بھی نظریہ ہے۔