کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 48
(۱)… شیخ ابوالحسن ندوی نے کتاب النبوت میں لکھا ہے: ’’ انبیاء کرام علیہم السلام کی اوّلین دعوت اور ہر معاشرے اور ہر زمانے میں ان کا اوّلین مقصد یہی رہا کہ: لوگوں کا اللہ کے بارے میں عقیدہ درست کرنا، عابد و معبود میں تعلق درست کرنا اور دین کو اللہ کے خالص کرنے کی دعوت، اللہ ہی کی عبادت اور یہ کہ وہی نفع و نقصان کا مالک ہے، وہی عبادت اور پکارنے کے لائق۔ وہی اکیلا قربانی کے لائق ہے۔ اور ان کی کوشش بت پرستی پر فوکس تھی،کہ اس سے لوگوں کو روکیں ۔ ان ادوار میں بت پرستی کا مطلب مزاروں ، بتوں اور زندہ اور فوت شدہ نیک بزرگوں کی پوجا کرنا ہوا کرتا تھا۔ (۲)… یہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو ان کا ربّ کہتا ہے: ﴿ قُلْ لَّا اَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَائَ اللَّہُ ط وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓئُ إِنْ اَنَا إِلَّا نَذِیرٌ وَّبَشِیرٌ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُونَ ﴾ [الاعراف:۱۸۸] ’’ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیں کہ میں اللہ کی مرضی کے خلاف اپنے لیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں اور اگر میں غیب کی خبریں جانتا ہوتا تو میں ڈھیروں خیر جمع کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ ہوتا۔ میں تو محض ایمان لانے والوں کو ڈرانے اور بشارت دینے والا ہوں ۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تُطْرُونِی کَمَا اَطْرَتِ النَّصَارَی ابْنَ مَرْیَمَ ، فَإِنَّمَا اَنَا عَبْدُہُ، فَقُولُوا عَبْدُ اللَّہِ وَرَسُولُہُ۔)) [1] ’’ جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم کو بڑھا چڑھا دیا تھا ایسے تم میری شان نہ بڑھانا۔ میں تو محض بندہ ہوں تو کہا کرو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔ ‘‘ إطراء مدح میں مبالغہ کرنے کو کہتے ہیں ۔ اس لیے ہم اللہ کے علاوہ نبی کو نہ پکاریں ، جیسے
[1] صحیح البخاري: ۱۲/ ۱۵۶، کتاب احادیث الأنبیاء، باب واذکر فی الکتاب مریم، ح: ۳۴۴۵۔