کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 37
شرک سے پاک ہو جو کہ بہت سے مسلمان ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اور اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی بھی فرمائی تھی: (( لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتَّی تَلْحَقَ قَبَائِلٌ مِنْ أُمَّتِیْ بِالْمُشْرِکِیْنَ وَحَتَّی تَعْبُدَ قَبَائِلٌ مِنْ أُمَّتِیْ الْأَوْثَانَ۔ )) [1] ’’ قیامت اس وقت تک بپا نہیں ہوگی، جب تک میری اُمت کے کچھ قبائل مشرکوں سے نہ مل جائیں اور کچھ قبائل بتوں کی پوجا نہ کرنے لگ جائیں ۔ ‘‘ ب:…مالی جہاد: اسلام کی نشر و اشاعت اور اس کی صحیح دعوت دینے والی کتب کی طباعت کروانا ،تالیف قلبی اور کمزور مسلمانوں کی استقامت کے لیے مال خرچ کرنا اور اسلحہ سازی ، اسلحہ خریدنا اور مجاہدین کی ضروریات پوری کرنا ، کھانا کپڑا وغیرہ مالی جہاد ہے۔ ج:…جان کے ساتھ جہاد: اور اس کی عملی صورت ہے قتال کرنا، معرکہ آرائی کرنا، اسلام کی مدد کے لیے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے اور کافروں کا کلمہ سرنگوں ہوجائے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اقسام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: (( جَاہِدُوْا الْمُشْرِکِیْنَ بِأَمْوَالِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ۔)) [2] ’’ مشرکوں سے مال، جان اور زبان کے ساتھ جہاد کرو۔ ‘‘ [3]
[1] سنن أبي داؤد، ج: ۲، ص: ۴۹۹، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلہا وہو صحیحٌ۔ [2] سنن أبي داؤد، ج: ۲، ص: ۱۳، کتاب الجہاد، باب کراہیۃ ترک الجہاد، حدیث: ۲۵۰۴۔ صححہ الألبانی رحمہ اللہ ۔ [3] بعض حالات میں قتال و غزوہ ہر مسلمان پر فرض عین ہوجاتا ہے، تب مال و زبان کا جہاد کافی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ اے مومنو! اگر تم جہاد کے لیے نہ نکلے تو اللہ تمھیں دردناک عذاب دے گا۔ ‘‘ (توبہ :۳۹) اللہ تعالیٰ کسی نفلی یا فرض کفایہ کام کو چھوڑنے پر عذاب نہیں دیتا، جبکہ کچھ لوگ وہ کام کر بھی رہے ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے باقی معرکوں میں شریک ہونے اور صرف ایک معرکہ تبوک میں سستی کرنے والوں کو سزا دی، تب ان کی توبہ قبول فرمائی انہی آیات کی وجہ سے سورۃ براء ۃ کا نام سورۃ توبہ بھی رکھ دیا گیا۔ اور توبہ فرض چھوڑنے پر ہوتی ہے، نفل پر نہیں ۔ ان حالات میں جہاد فرض ہوتا ہے، جب دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو یا امیر سب کو نکلنے کا حکم دے یا معرکہ شروع ہوچکا ہو۔ (مترجم)