کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 343
’’ دیکھئے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین سے صلح فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا: اے علی! (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ کو تحریر سے ) مٹا دے۔ اور لکھ: یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد بن عبد اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے صلح کی ہے۔ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔ ‘‘ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات برکات جناب علی رضی اللہ عنہ سے نہایت اعلیٰ اور بہت بہتر ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود (صلح نامے میں لکھے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مٹا دیا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے ہاتھ سے مذکورہ الفاظ کو مٹانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ختم ہوگئی۔ کیا میں نے تمہارے تیسرے اعتراض کا جواب بھی دے دیا؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ! اس کے بعد ان میں سے دو ہزار نے رجوع کر لیا۔ ان کے علاوہ باقی سب مسلمانوں کے مقابلہ میں لڑائی کے لیے نکلے تو مہاجرین و انصار نے ان کو ان کی گمراہی کے سبب قتل کیا۔[1] چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج و طریق سے خوارج کے خلاف دلیل لی ۔کیونکہ ان پر قرآن نازل ہوا تھا اور وہ اس کی تفسیر و تشریح کو بخوبی جاننے والے تھے۔ نیز وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی سب سے زیادہ اتباع کرنے والے تھے۔ سیّدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے خوارج کے شبہات کی توجیہ اور حق کے بیان کو ترجیح دینا کھوکھلی گرج والے باطل کے مقابلہ میں زیادہ روشن ہے۔ نیز یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے منہج سے دلیل لینے کے اعتبار سے ایک علمی دلیل ہے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اپنے آپ کوسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم تک محدود رکھ۔ جہاں صحابہ ٹھہر ے وہاں تو بھی ٹھہر جا۔جو انہوں نے فرمایا، وہ تو بھی کہہ۔ جس کام سے وہ رکے رہے۔تو بھی
[1] اخرجہ البخاری: ۵/۳۰۳، ۳۰۴ مع فتح الباری و صحیح مسلم: ۱۲/۱۳۴، ۱۳۸ مع شرح نووی ولہ شاہد من حدیث البراء بن عازب و انس بن مالک رضی اللہ عنہما۔