کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 342
’’ اگر تمھیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے مقرر کرو اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو۔ ‘‘ اب تمہیں میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں : کیا ان کی صلح کرانے اور ان کے خون کو گرنے سے بچانے کے لیے حکم مقرر کرنا ایک عورت سے بہتر نہیں ہے؟ اور پھر پوچھا:کیا میں نے تمہارے پہلے اعتراض کا جواب دے دیا ؟ انہو ں نے کہا: ہاں میں نے کہا : رہا تمہارا یہ اعتراض کہ جناب علی رضی اللہ عنہ نے لڑائی جب کی تو نہ مخالفین کو قیدی بنایا اور نہ ہی ان کے مال کو غنیمت جانا تو کیا تم اپنی ماں عائشہ رضی اللہ عنہا کو قیدی بنا نا چاہتے ہواور پھر ان کو بھی اسی طرح حلال سمجھتے ہوں جس طرح دیگر عورتیں (لونڈیاں )تمہارے لیے حلال ہیں ؟ اب اگر تم کہو کہ ہم ان کو اسی طرح حلال سمجھتے ہیں جس طرح دوسری عورتیں ، تمہارے لیے حلال ہیں تو تم کفر کے مرتکب ہوئے۔ اور اگر تم کہو کہ وہ ہماری ماں نہیں ، پھر بھی تم کافر ٹھہرے کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ ﴾(الاحزاب:۶) ’’ پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں ۔ ‘‘ لہٰذا تم دو گمراہیوں میں گھرے ہوئے ہو، ان سے نکالنے والی خیر لا ؤ۔ کیا میں نے تمہارے دوسرے اعتراض کا بھی جواب دے دیا؟ انہوں نے کہا: ہاں ! اب رہا تمہار ا یہ اعتراض کے انہوں نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لقب کیوں ختم کر دیا تو اس کے جواب میں مَیں تمہارے سامنے وہ دلیل لانے والا ہوں جس سے تم راضی ہو جاؤ گے: