کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 341
کریں تو کیا تم اپنے موقف سے رجو ع کر لو گے؟ انہوں نے کہا: ہاں ! میں نے کہا: رہی یہ بات کہ امیر المؤمنین جناب علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے حکم میں لوگوں کو فیصل کیوں بنا یا؟ تو اس کا جواب میں تمہیں کتاب اللہ پڑھ کر سنا تا ہوں ۔اللہ تعالیٰ نے خود ایک چوتھائی درہم کی قیمت کے بارے میں اپنا حکم بندوں کو سونپا ہے۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر غور نہیں کیا : ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاَنْتُمْ حُرُمٌط وَمَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآئٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِہٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ ﴾ (المائدہ:۹۵) ’’ اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو۔ اس وقت کہ جب تم حالت احرام میں ہو۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے، جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کریں گے۔ ‘‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنا فیصلہ خود بندوں کو سونپا ہے۔ حالاں کہ اگر وہ چاہتا تو خود بھی اس بارے میں فیصلہ دے سکتا تھا۔ لہٰذا لوگوں کو حاکم بنانا درست ہوا۔ اب میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں : کیا لوگوں میں صلح کرانے اور ان کے خون کو گرانے کے لیے فیصل مقرر کرنا بہتر ہے یا کسی خرگوش کا فیصلہ کرنے کے لیے حکم مقرر کرنا؟ انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں ، یہی (فیصل مقرر کرنا) بہتر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے خاوند اور اس کی بیوی کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَا ﴾ (النساء:۳۵)