کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 34
کیا جاتا ہے۔ (یعنی وہ مروجہ فیشن اور رواج کی رو میں نہیں بہتے) جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں پیشین گوئی فرمائی ہے:
(( إِنَّ الْاِسْلَامَ بَدَأَ غَرِیْبًا وَسَیَعُوْدُ غَرِیْبًا کَمَا بَدَأَ فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَائِ۔ )) [1]
’’ اسلام اجنبیت میں شروع ہوا تھا اور عنقریب (غریب الوطنی کے اعتبار سے) اسی کی طرف لوٹ جائے گا، جیسا کہ اجنبی سا شروع ہوا تھا۔ تو ان اجنبیوں کے لیے جنت ہے۔ ‘‘
علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کو ابوعمر الدانی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
(۶)… نجات یافتہ جماعت کے لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ معصوم ہیں اور اپنی مرضی سے نہیں بولتے … کے علاوہ کسی کے قول کے لیے تعصب نہیں رکھتے۔
رہے دوسرے لوگ، تو ان کی شان کتنی ہی بلند کیوں نہ ہو وہ غلطی کرسکتے ہیں ۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ۔ )) [2]
’’ ہر آدم زادہ غلطی کا پتلا ہے اور ان میں سے بہتر لوگ خوب توبہ کرنے والے ہیں ۔ ‘‘
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص کی بات لی جاسکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے۔
(۷) … نجات یافتہ جماعت اہل حدیث [3] ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
[1] مسند أحمد، ج: ۷، ص: ۲۰۲۔ صحیح مسلم، ج: ۱، ص: ۴۶۷، حدیث: ۳۷۲۔
[2] مسند أحمد بن حنبل، ج: ۳، ص: ۱۹۸ وہو حسنٌ۔
[3] مؤلف نے پہلے نجات یافتہ جماعت اہل سنت کو قرار دیا۔ یہاں اہل حدیث کو قرار دیا۔ تو اصل بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں ۔ تصوف و شرک اور بدعات کے جو سلسلے اہل سنت کہلاتے ہیں وہ صوفی ہیں اہل سنت نہیں ۔ اور یہ تمام نام صرف تعارف کے لیے ہیں ۔ اصل بات عقیدہ اور عمل کی ہے۔ اگر کوئی شخص ان ناموں کا خیال رکھے بغیر توحید کو اپنائے، شرک سے بچے، عمل صالح کرے، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھام لے تو وہ ہی نجات یافتہ جماعت کا فرد ہے۔ خواہ اس کا نام اہل حدیث اور اہل سنت نہ بھی ہو۔ (مترجم)