کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 339
آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے آپ کے بارے میں ان سے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا: ہر گز نہیں ،کیوں کہ میں ایک اچھے اخلاق والا آدمی تھا اور کسی کو تکلیف نہیں دیتا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے یمن کا ایک بہترین حلہ پہنا، کنگھی کی اور نصف النہار کے وقت ان کے پاس چلا گیا۔ وہ کھا نا کھا رہے تھے ۔میں نے دیکھا کہ وہ ایسے لوگ تھے جن سے زیادہ محنتی لوگ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ان کی پیشانیاں سجدوں کی وجہ سے زخمی ہو چکی تھیں اور ان کے ہاتھ اونٹوں کی کھروں کی طرح تھے۔ انہوں نے موٹی قمیصیں پہن رکھی تھیں ۔ ان کے تہہ بند ٹخنوں سے اوپر تھے اور لاغری کی وجہ سے ان کے چہروں کے رنگ بدلے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں سلام کہا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور پوچھا : اے ابن عباس! آپ پر یہ حلہ کیسا ہے؟ میں نے کہا: تم مجھ پر عیب کیوں لگاتے ہو، حالاں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے اچھا یمنی حلہ پہنے ہوئے دیکھا ہے۔ پھر میں نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: ﴿ قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْٓ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَالطَّیِّبٰتِ مِنَالرِّزْقِ ﴾ (الاعراف:۳۲) ’’ پوچھئے (اے محمدؐ!) کہ اللہ کی زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی ہے اور پاکیزہ رزق کو کس نے حرام کیا ہے؟ ‘‘ تو وہ کہنے لگے: آپ کس لیے آئے ہیں ؟ میں نے کہا: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مہاجرین و انصاراور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد کی طرف سے آیا ہو ں ۔ ان کے درمیان قرآن نا زل ہوا ہے لہٰذا وہ تم سے زیادہ اس کی تفسیر کو جانتے ہیں ۔ اور تمہارے اندر ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔ میں تمہیں ان کا پیغام پہچانے آیا ہوں اور انہیں تمہارا پیغام پہنچا ؤں گا۔ تو ان میں سے ایک گروہ (اپنے ساتھیوں کو )کہنے لگا : تم قریش سے جھگڑا نہ کرو،