کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 333
طلحہ، عائشہ اور معاویہ رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرنا ہے۔ اور جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر طعن کرے اور ان کو کافر قرار دے وہ ان کے منہج پر نہیں ہو سکتا۔ اور صوفیہ؟ توانہوں نے انبیاء کے ورثہ کا مذاق اڑایا اور کتاب و سنت کو نقل کرنے والوں کی توہین کی اور انہیں مردہ قرار دیا۔ یہ با ت ان کے ایک بڑے نے کہی ہے کہ: ’’تم اپنا علم مردوں سے حاصل کرتے ہو اور ہم اپنا علم اس زندہ ذات سے حاصل کرتے ہیں جو کبھی نہیں مرے گی۔ ‘‘ اسی لیے وہ اہل حدیث کی اسناد کی مخالفت کرتے ہوئے منہ پھاڑ پھاڑ کر کہتے ہیں : ’’حَدَّثَنِیْ قَلْبِیْ عَنْ رَبِّیْ۔‘‘ ’’یعنی میرے دل نے مجھے میرے رب کی طرف سے بتایا ہے۔ ‘‘ جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے تو ان کاگمان ہے کہ چند ایک کے علاوہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہو گئے تھے۔ (العیاذ باللہ ) ان کے اماموں میں سے ایک ’’الکشی ‘‘ اپنی کتاب ’’رجال‘‘ میں صفحہ ۱۲،۱۳پر لکھتا ہے کہ ابوجعفر رحمہ اللہ نے کہا : ’’ کَانَ النَّاسُ أَہْلَ رِدَّۃٍ بَعْدَ النَّبِيِّ إِلاَّ ثَـلَاثَۃٌ۔‘‘ [1] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تین کے علاوہ تما م لوگ مرتد ہو گئے تھے۔ ‘‘ میں نے پوچھا: وہ تین کون ہیں ؟ تو انہوں نے کہا: وہ تین تھے: مقدادبن اسود، ابو ذر غفاری اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم ۔ یہی الکشی اپنی اس کتاب کے ص ۱۳ پر جناب ابو جعفر محمد الباقر رحمہ اللہ سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے: ’’ اَلْمُہَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ ذَہَبُوْا اِلاَّ ثَـلَاثَۃ۔‘‘
[1] دیکھئے: الکلینی کی کتاب: ’’ الکافی ‘‘، صفحہ: ۱۱۵۔