کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 332
’’جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں ۔ ‘‘ اعتراض: اگر یہ کہا جا ئے کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا فہم ہی وہ منہج ہے جس میں باطل آگے پیچھے سے بالکل نہیں داخل ہوسکتا۔ لیکن اس کی کیا دلیل ہے کہ منہج سلفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ہی فہم ہے؟ جواب: تو ہم کہیں گے، اس کا جواب دو طرح سے دیا جا سکتا ہے: (الف)… وہ مفاہیم جو ابھی ذکر کیے گئے ہیں عہد نبوی اور خلافت راشدہ کے بعد کے ہیں اور پہلے والوں کی نسبت بعد والوں کی طرف نہیں کی جاتی بلکہ بعد والوں کی نسبت پہلے والوں کی طرف کی جاتی ہے۔ تو واضح ہوا کہ وہ گروہ جو ان راہوں پر نہیں چلا اور ان راستوں کی پیروی نہیں کی، وہی اس پر باقی رہنے والا گروہ ہے۔ (ب)… ہم امت کے فرقوں میں سے اہل سنت و الجماعت، جو کہ سلف صالحین اہل حدیث کے پیرو کار ہیں ، کے علاوہ کسی کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موافق نہیں پاتے۔ جہاں تک معتزلہ کا تعلق ہے تو وہ صحابہ کی موافقت کرنے والے کیسے ہو سکتے ہیں ؟ جب کہ ان کے بڑوں نے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم پر تنقید کی ان کی، عدالت کا انکار کیا اور انہیں گمراہی کی طرف منسوب کیا۔ جیسے واصل بن عطاء نے کہا ہے: ’’اگر علی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم ترکاری کی ٹوکری کے بارے میں بھی گواہی دیں تو میں ان کی گواہی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کروں گا۔ ‘‘[1] اور رہے خوارج؟ تو وہ دین سے نکل گئے اور مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہو گئے۔ ان کے مذہب کے بنیادی عقائد میں سے جناب علی اور ان کے بیٹوں ، ابن عباس، عثمان،
[1] دیکھئے: ’’ الفرق بین الفرق ‘‘، صفحہ: ۱۱۹۔۱۲۰۔