کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 331
فضیلت ان کے اسلام کی طرف سبقت کر نے کی وجہ سے بھی ہے تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جا تاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ٭ …صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت کے دلائل میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث ہے: ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الْمَہْدِیِّیْنَ الرَّاشِدیْنَ ، عَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَواجِذِ۔)) [1] ’’ تم میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو اور اس کو مضبوطی سے تھا مے رکھو۔ ‘‘ اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اختلاف کی صورت میں صحابہ کے فہم کے مطابق اپنی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ اس حدیث میں ایک انتہائی لطیف نکتہ یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور اپنے خلفائے راشدین کی سنت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ’’ عضّوا علیہَا ‘‘یہ نہیں فرمایا: ’’عضوّا علیہِمَا ‘‘۔ یہ بتانے کے لیے کہ آپ کی اور آپ کے خلفاء راشدین کی سنت کا ایک ہی منہج ہے۔ اور یہ صرف اس صحیح اور صریح فہم کی مدد سے ہی ممکن ہے اور وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو صحابہ کے فہم کے مطابق سمجھنا۔ [2] ٭ …ان احادیث میں سے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کی صفت کے بارے میں یہ فرمان ہے: (( مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَاصْحَابِيْ۔))
[1] صحیح بخاری (۷/ ۲۱۔ الفتح)۔ صحیح مسلم: (۱۶/ ۱۲۔ ۹۳ نووی) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ [2] یعنی واحد کا صیغہ استعمال کیا ہے تثنیہ کا نہیں ۔ (مترجم )