کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 326
یُوْقِنُوْنَ o﴾ (السجدہ:۲۴) ’’ اورجب بنی اسرائیل کے لوگوں نے (کافروں کی ایذادہی پر) صبر کیا تو ہم نے ان کو (دین کا )پیشوا بنایا وہ ہمار ے حکم سے (لوگوں کوایمان کا) رستہ بتلاتے تھے اور ہماری آیتوں کا یقین رکھتے تھے۔ ‘‘ یہ موسیٰ علیہ السلام کے صحابہ کی صفت بیان ہوئی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ اس نے انہیں ان کے صبر و یقین کی بدولت بعد میں آنے والوں کے مقتداء اور پیشوا بنا یا۔ کیوں کہ (( بِالصَّبْرِ وَالْیَقِیْنِ تَنَالُ الْاِمَامَۃُ فِي الدِّیْنِ۔)) ’’یعنی صبر ویقین کی بدولت ہی دین میں امامت حاسل کی جا سکتی ہے۔ ‘‘ اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ موسیٰ علیہ السلام کہ ساتھیوں سے زیادہ اس صفت کے لائق اور حق دار تھے۔ کیوں کہ وہ تمام امتوں سے زیادہ یقین کامل اور صبر عظیم کے حامل تھے۔ لہٰذا وہ منصب امامت کے بھی زیادہ لائق ہیں (اور یہ بات اللہ کی ان کے بارے میں گواہی دینے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کی تعریف کرنے سے ثابت ہوتی ہے )لہٰذا وہ اس امت کے سب سے بڑے علماء ہیں ۔ ان کے اقوال و فتاوی کی طرف رجوع کرنا اور کتاب و سنت کے فہم میں ان کے فہم کے پابند رہنا حسی، عقلی، اور شرعی طور پر واجب ہے۔ ٭ … سیّدناابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں : ((صَلَّیْنَا الْمَغْرِبَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ثُمَّ قُلْنَا: لَوْ جَلَسْنَا نُصَليِ مَعَہُ الْعِشَائَ، فَجَلَسْنَا، فَخَرَجَ عَلَیْنَا فَقَالَ: مَا زِلْتُمْ ھُنَا؟ قُلْنَا: یا رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّیْنَا مَعَکَ، ثُمَّ قُلْنَا: نَجْلِسُ حَتّی نُصَليَ مَعَکَ الْعِشَائَ۔ قَالَ: أَحْسَنْتُمْ أَوْ أصَبْتُمْ۔ قَالَ: ثُمَّ رَفَعَ رَأسَہُ لِلْسَّمَائِ، وَکَانَ کَثِیرًا مَا یَرْفَعُ رَأسَہُ اِلَی السَّمَا ئِ فَقَالَ: النَّجُوْمُ أَمَنَۃٌ لِلْسَمَائِ، فَاِذَا ذَھَبَتِ النُّجُوْمُ أَتيَ السَّمَائُ أَمْرَھَا، وَأَنَا أَمَنَۃٌ