کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 324
﴿وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ کا عطف کیا گیا ہے وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی﴾ پر۔ لہٰذا پہلے کی قید دوسرے کی شرط نہیں بن سکتی۔ اور عطف تو صرف مطلق جمع اور دوسرے جملے کو حکم میں شریک کرنے کے لیے آتا ہے اور وہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان: ﴿نُوَلِّہٖ مَا تُؤْتٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا o﴾ لہٰذا پتہ چلا کہ دونوں کام انفرادی طور پر وعید کے موجب ہیں ۔ اس پر درج ذیل دلائل بھی دلالت کرتے ہیں ۔ (الف) … ہدایت کے واضح ہونے کی شرط صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں ہے کیوں کہ جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت سے ہی ناآشنا ہے۔ اس کو مخالفت کا مرتکب نہیں کہا جاسکتا۔ جہاں تک سبیل المومنین کا تعلق ہے تو وہ تو بذات خود ہدایت ہے۔ (ب) … دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ آیت مومنوں کی عظمت کو بیان کرتی ہے۔ چنانچہ اگر ان کے راستے کی پیروی کرنا ہدایت کے واضح ہونے کے ساتھ مشروط ہوتا تو ان کے راستے کی پیروی کرنا اس لیے نہ ہوتا کہ یہ ان کا راستہ ہے۔ بلکہ ہدایت کے واضح ہونے کی وجہ سے ہوتا۔ اور تب تو ان کے راستے کی اتباع کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سبیل المومنین کی پیروی کرنا نجات کا باعث ہے اور ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دین کا فہم باقی تمام لوگوں کے لیے حجت ہے۔ چنانچہ جو اس راہ سے ہٹتا ہے وہ در حقیقت ٹیڑھ پن تلاش کرتا ہے، ایک تنگ راستے پر چلتا ہے، اس کو جہنم ہی کافی ہے اور وہ بہت براٹھکانہ ہے۔ یہی حق ہے سو آپ اس کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور ادھر ادھر کی پگڈنڈیوں کو چھوڑ دیں ۔ اس کی وضاحت درج ذیل آیت سے ہوتی ہے۔ ٭ …ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ وَمَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ o﴾(آل عمران:۱۰۱)