کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 322
ان کے اشکال کو دور کر دیا۔ ﴿ثُمَّ نُنَجِّی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ (مریم:۷۲) گویا پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فہم کی تائید فرمائی پھروضاحت فرمائی کہ جہنم میں داخلے کی نفی اور ’’ورود‘‘ کا اثبات دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ اور یہ کہ پہلی چیز متقین کے لیے خاص ہے اور اس سے مراد عذاب کی نفی ہے۔ چنانچہ وہ جہنم سے گزریں گے لیکن کوئی نقصان اور عذاب نہیں ہوگا۔ جب کہ باقی لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس ہو گا۔ لہٰذا الحمد اللہ ثابت ہو گیا کہ دلیل خطاب حجت ہے۔ اس پر اعتماد کیا جا تا اور فہم کے لیے اس کی طرف رجوع کیا جا تا ہے۔ آپ کے لیے یہی کافی ہے کہ ﴿وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ دلیل خطاب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک عقلی دلیل ہے کیوں کہ سبیل المومنین (مومنوں کے راستے )کی اتباع اور غیرسبیل المومنین کی اتباع (ان کے علاوہ کسی اور کا راستہ )کے درمیان تیسری کوئی قسم بنتی ہی نہیں ۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے مومنین کے علاوہ کسی اور کے راستے پر چلنے کوحرام قرار دیا ہے تو مومنوں کی راہ پر چلنا واجب ہو گیا اور یہ واضح ہے اس میں کوئی شبہ نہیں ۔ اگر کہا جا ئے کہ ان دونوں قسموں کے درمیان ایک تیسری قسم بھی ہے اور وہ ہے کسی کی اتباع نہ کرنا۔ تو ہم کہیں گے: یہ عقلی دلائل میں سے کمزور ترین دلیل ہے۔ کیوں کہ کسی کی بھی اتباع نہ کرنا ہی تو غیر سبیل المومنین ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ؛ ﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ o﴾ (یونس:۳۲) ’’ اورسچ بات معلوم ہوجانے پر اس کونہ ماننا گمراہی نہیں تو پھر کیا ہے؟ تم کدھر پھرے جار ہے؟۔ ‘‘ لہٰذا ثابت ہوا کہ مذکورہ دو ہی صورتیں بنتی ہیں تیسری کوئی صورت نہیں ۔ اگر کہا جائے کہ :