کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 318
اپنے اقوال، افعال اور ارادے کے اعتبار سے سب سے زیادہ درست تھے۔ لہٰذا وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ لوگوں پر گواہ بنیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذکر کو بلند کیا، ان کی تعریف کی اور انہیں اچھی مقبولیت بخشی۔ اللہ کے نزدیک قابل قبول گواہ وہ ہے جو علم اور سچائی کے ساتھ گواہی دے اور اپنے علم کی بنیاد پر سچی خبر دے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ اِِلَّا مَنْ شَہِدَ بِالْحَقِّ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ o﴾ (الزخرف:۸۴) ’’ ہاں (مستحق شفاعت وہ ہیں ) جو حق بات کا اقرار کریں اور انھیں علم بھی ہو۔ ‘‘ جب ان کی گواہی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے تو یقینا ان کے دین کا فہم بھی ان کے بعد آنے والوں لوگوں کے لیے حجت ہے کیوں کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں امت نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ کسی جماعت کو مطلق طور پر درست نہیں کہا۔ چنانچہ سلفی جماعت حقہ اہل سنت و الجماعت نے ان سب کو بغیر کسی شرط کے عادل قرار دیا ہے۔ ان سے بغیر کسی استثناء کے روایت اور اس کا فہم حاصل کیا ہے۔ جب کہ ان کے علاوہ صرف ان لوگوں کی تعدیل کی ہے جن کی امامت صحیح ہو اور عدالت ثابت ہو جا ئے۔ اوریہ دونوں چیزیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں ۔ اس سے ثابت ہوا کہ کتاب و سنت کی وضاحت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فہم باقی لوگوں کے لیے حجت ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل آیت مبارکہ سے ہوتی ہے۔ ٭ …فرمایا: ﴿ وَّاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ط﴾ (لقمان:۱۵) ’’ اور اس کی راہ چلنا جو میری طرف جھکا ہوا ہو۔ ‘‘ اور صحابہ میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔سو اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھی بات اور نیک عمل کی تو فیق دی جس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: