کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 315
بغیر واسطے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا اور وہی وحی کے براہ راست مخاطب تھے۔ وہ اس فضیلت میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ لائق ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے خیر امت کے جو اوصاف بیان کیے ہیں وہ صرف انہی میں بدرجہ اتم (بدرجہ کمال) پائے جاتے تھے۔ چنانچہ صورت حال کی اس صفت سے مطابقت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت تعریف کے زیادہ حق دار ہیں ۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ٭ …نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( خَیْرُ النَّاسِ [1] قَرْنيْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُُوْنَہُمْ، ثُمَّ یَجيْئُ قَوْمٌ تَسْبِقُ شَھَادَۃُ أَحَدِھِمْ یَمِیْنَہُ، وَیَمِیْنُہُ شَھَادَتَہُ۔)) ’’ بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں ۔ پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے۔ پھر ایسے لوگ آئیں گے جن کی گواہی ان کی قسموں سے سبقت لے جا ئے گی اور ان کی قسمیں ان کی گواہی سے سبقت لے جائیں گی۔ ‘‘ [2] سوال: کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ان کے رنگوں ، جسموں یا مالوں کی وجہ سے تھی ؟ جواب: کوئی بھی عقل مند شخص جس نے قرآن و حدیث کو سمجھا ہے اس میں شک نہیں کر سکتا کہ ان میں سے کوئی چیز بھی مقصود نہیں ۔ کیوں کہ فضیلت تو اسلام کی وجہ سے ہے جس کا پیمانہ دل میں اللہ تعالیٰ کا ڈر اور عمل صالح ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿ اِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ ط﴾ (الحجرات:۱۳)
[1] بہت سی کتابوں میں یہ حدیث ’’ خیر القرون ‘‘ کے لفظ کے ساتھ لکھی جاتی ہے، حالانکہ یہ غیر محفوظ لفظ ہے اور صحیح وہی وہ ہے جو میں نے بیان کی ہے۔ [2] کبیر: جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ الاصابہ ‘‘ (۱/۱۲) میں ،مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ فیض القدیر ‘‘ (۳/۴۷۸) میں ذکر کیا ہے اور کتانی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ نظم المتناثر ‘‘ (صفحہ: ۱۲۷) پر ان کی تائید کی ہے۔