کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 305
پھر جب ان پر حقیقت واضح ہو تی ہے تو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کے بارے میں حقیقی علم اور اس کی خالص معرفت کی کوئی دلیل نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں نہ تو وہ مشاہدے پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی احادیث پر اعتماد کرتے ہیں ۔ پھر یہ نا قص علم والے، حقیقت سے ناآشنا، گھٹیا، بعد میں آنے والے اور حیرت زدہ لوگ پہلے ایمان لانے والے مہاجرین و انصار سے زیادہ اللہ تعالیٰ اور اس کی آیات کو جاننے والے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ جو کہ انبیاء کی وراثت میں سے حصہ پانے والے، رسولوں کے خلفاء، ہدایت کے مینار اور روشن چراغ تھے۔ جن کے ساتھ کتاب قائم تھی اور وہ کتا ب اللہ کے ساتھ قائم تھے۔ وہ کتاب کے مطابق بولتے تھے اور کتاب ان کے بارے میں بات کرتی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت سے نوازا، وہ علم و حکمت کہ جس کی وجہ سے وہ انبیاء کے تمام پیروکاروں سے نمایاں ہیں ۔ وہ معارف کی حقیقتوں اور حقائق کی تہہ تک پہنچتے حتی کہ اگر ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں کی حکمت کو جمع کر کے ان کے مقابلہ میں لایا جا ئے تو تقابل کرنے والا خود ہی شرمندہ ہو جائے گا۔ پھر امت کے بہترین لوگ علم وحکمت میں ان گھٹیا لوگوں سے کمتر کیسے ہو سکتے ہیں ؟ بالخصوص اللہ تعالیٰ اور اس کے اسماء و آیات کے علم کے اعتبار سے۔ یا بزعم خویش فلسفی بننے والوں کی یہ چڑیاں اور یونان و ہندکے پیروکار ،اللہ تعالیٰ کے بارے میں انبیاء کے ورثاء اور اہل قرآن و اہل ایمان سے زیادہ جانتے ہیں ؟ ایک عالم ربانی محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’التحف فی مذاہب السلف‘‘ (صفحہ ۴۱۔۴۴) پر فرماتے ہیں : ’’ کچھ لوگوں کا یہ زعم باطل ہے کہ خلف کا طریقہ زیادہ علمی ہے۔ مگر خلف کے طریقے کی اس زیادہ علمیت کے ساتھ انہیں جو کامیابی ملی ہے اس کی حد یہ ہے کہ ان کے محققین اور ذہین ترین لوگ جب مرنے لگتے ہیں تو بوڑھی عورتوں کے دین کی خواہش کرتے ہیں ۔ اور وہ کہتے ہیں : مبارک ہو عام لوگوں کو۔ ‘‘ (یہ کہنے والے عموماً شیعہ ہوتے ہیں اور اُن کی ’’ عام لوگوں ‘‘ سے مراد اہل السنہ