کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 304
نہایۃُ إقدامِ العقولِ عقالُ وأکثرُ سعي العالمین ضلالُ وأرواحنُا في وحشۃٍ في جسومنا وحاصلُ دنیانا أذی ووبالُ ولم نستفد من بحثنا طولَ عمرنا سوی أن جمعنا فیہ قیل وقالوا ’’ عقلوں کے گھوڑوں کی منزل ہے بے بسی اور علماء کی زیادہ محنت گمراہی کا سبب ہے۔ ہماری روحیں ہمارے جسموں میں وحشت زدہ ہیں اور ہماری دنیا کا حاصل تکلیف اور مصیبت ہے۔ ہماری عمر بھر کی بحثوں سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا سوائے اس کے کہ ہم نے اس میں قیل اور قالو ا کو جمع کر دیا ہے۔ ‘‘[1] اور ان کا ایک دوسرا عالم کہتا ہے : ’’میں نے ایک بڑ ے سمندر میں غوطہ لگا دیا ہے۔اہل اسلام اور ان کے علوم کو چھوڑ دیا ہے۔ایک ایسے علم میں مشغول ہو گیا ہوں جس سے لوگوں نے روکا تھا اور اب اگر مجھے میرے رب کی رحمت نے مجھے اپنے دامن میں نہ لیا تو ہلاکت ہو فلاں آدمی کے لیے۔ لہٰذا اب میں اپنی ماں کے عقیدے پر جان دے رہا ہوں ۔ ‘‘[2] ان میں سے ایک اور شخص کہتا ہے : ’’موت کے وقت سب سے زیادہ شک میں پڑنے والے لوگ اہل کلا م ہیں ۔ ‘‘
[1] یہ ابن خطیب المعروف فخر الدین رازی کے اشعار ہیں ، شاطبی نے انہیں ’’الافادات والانشادات‘‘ میں (صفحہ ۸۴، ۸۵)پر اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے اور المقری کی کتاب ’’ نفخ الطیب ‘‘ (۹/۱۹) میں اور لسان الدین ابن خطیب کی کتاب ’’ الاحاطۃ فی اخبار غرناطہ ‘‘ (۲/۲۲۲) میں دوسری سند کے ساتھ مروی ہیں ۔ [2] یہ ابن جوینی کے الفاظ ہیں ۔ جیسا کہ ’’ المنتظم ‘‘ (۹/۱۹)، ’’ سیر اعلام النبلاء ‘‘ (۱۸/۴۷۱)، ’’طبقات شافعیہ ‘‘ (۳/۲۶۰) اور ’’ شذرات الذہب ‘‘ (۳/۳۶۱) میں ہے۔