کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 303
۳… کسی بھی مذہب میں وہ کو ن سا علم و حکمت ہے جس سے اس کے پیرو کار برأت کا اظہار کریں اور اس کے بڑے بڑے لوگ اس کی غلطی اور خطا کا بر ملا اقرار کریں ۔خود اپنے معاملے میں حیرت کا اظہار کریں ۔اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے اسلاف کے بارے میں اپنے رویے پر شرمندہ ہوں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’عقیدۃ حمویہ ‘‘ (۱/۴۲۸) میں اسے عیب قرار دیتے ہوئے سیر حاصل بحث کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’یہ متاخرین کیسے لوگ ہیں ۔ بالخصوص ’’خلف ‘‘سے میرا اشارہ ایک خاص قسم کے متکلمین کی طرف ہے جن کا دین کے معاملہ میں اضطراب بہت بڑھ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے معاملہ میں ان کی عقلوں پر دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ ‘‘ ایک شاعر نے ان کے مقصد کو سمجھ کر ان کے انتہائی اقدامات کے بارے میں کیا خوب صورت بات کہی ہے : لعمري لقد طُفت المعاہد کلّہا وسیّرتُ طرفي بینَ تلک المعالم فلم أرَ إِلاَّ واضعا کفَّ حائرٍ علی ذقن أو قارعًا سِنَّ نادمٍ ’’ مجھے میری عمر کی قسم! میں نے تمام مراکز میں چکر لگایا ہے۔ اور میں نے ان کے علمی مراکز کی بھی سیر کی ہے۔ مگر میں نے ہر ایک کو دیکھا کہ حیرت سے اپنی ہتھیلی اپنی ٹھوڑی پر رکھے ہوئے ہے یا شر مندگی کی وجہ سے اس کے دانت بج رہے ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے خود اپنی ان باتوں کے غلط ہونے کا اقرار کیا ہے جن پر وہ عمل کرتے ہیں یا جن کے لیے انہوں نے کتابیں لکھی ہیں ۔ چنانچہ ان کا ایک بڑا عالم لکھتا ہے: