کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 301
دیں گے ) آخرت میں اس کو دوزخ میں لے جا کر ڈال دیں گے اور وہ بری جگہ ہے جانے کی۔ ‘‘ (ب)… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے راستے کو ’’السنہ ‘‘ کہا ہے۔ اور السنہ اس راستے کو کہتے ہیں جس پر ہر وقت لوگ چلتے رہتے ہوں ۔جیسا کہ عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی گزشتہ حدیث میں ہے۔ (ج)… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کو اس راہ پر قائم رہنے کے ساتھ مشروط کر دیا ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے۔ اگر یہ واضح خدو خال والا منہج نہیں ہے تو اس کے ساتھ تمسک کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ کیوں کہ اس صورت میں تو یہ منہج دوسرے مناہج کے ساتھ اس طرح گڈ مڈ ہو جا ئے گا کہ اس کی پہچان نا ممکن ہو جائے گی۔ آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور کریں : ﴿ فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ہُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ o﴾ (البقرہ:۱۳۷) ’’پھر اگر وہ (یعنی یہود اور نصاریٰ) تمھاری طرح ایمان لائیں تو راہ پاگئے اور اگر نہ مانیں تو ضد میں گرفتار ہیں ۔ قریب ہے (وہ زمانہ) کہ اللہ ان کے شر سے تم کو بے فکر کر دے گا اور وہ سنتا (ہے ان کی باتوں کو) جانتا ہے۔ ‘‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر بھی غور کریں کہ فرمایا: (( إِنَّ مِنْ وَرَآئِ کُمْ اَیَّامُ صَبْرٍ، لِلْمُتَمَسِّکِِ فِیْہِنَّ یَوْمَئِذٍ بِمَا أَنْتُمْ عَلَیْہِ أَجْرُ خَمْسِیْنَ مِنْکُمْ۔)) ’’بے شک تمہارے بعد صبر والے دن آئیں گے، اس وقت تمہارے منہج پر قائم رہنے والے کے لیے تم میں سے پچاس آدمیوں کے برابر اجر ہو گا۔‘‘[1]
[1] اپنے شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ’’درء الارتیاب عن حدیث ما انا علیہ والأصحاب ‘‘ صفحہ ۱۵پر وضاحت کی ہے۔