کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 299
’’اس اختلاف کو ذکر کرتے ہوئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ ‘‘ کا واضح مطلب یہ ہے کہ جو شخص سنتوں پر دوام اختیار کرے، ان کے مطابق بات کرے اور سنتوں کو چھوڑ کر ادھر ادھر کی آراء کے پیچھے نہ چلے تو وہ قیامت کے دن فرقہ ناجیہ میں سے ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہمیں بھی ان میں سے بنا دے۔ ‘‘ ان کبار علماء کے اقوال ذکر کرنے سے حدیث کا صحیح معنیٰ واضح ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ :خواہشات کی گمراہیوں اور شبہات و شہوات کی مصیبتوں سے…جو کہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو روشن شریعت سے ہٹا دیتی ہیں …نجات کا وا حد راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا وہ فہم ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گامزن تھے۔ کیوں کہ ان کے پاس احادیث کا ایک وافر ذخیرہ موجود تھا، انہیں احادیث کے اسباب ورود کا علم تھا اور وہ ایک لمبے عرصے تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تھے۔ لہٰذا ان کے بعد امت میں سے کسی شخص کے لیے ان کے برابر ہونے کا تصور کرنا بھی جا ئز نہیں ۔ کیوں کہ وہ ہدایت کو جانتے تھے، اپنے علم پر عمل کرتے تھے اور بصیرت کے ساتھ معاملات پر غور کرتے تھے۔ جو ان کے سیدھے راستے پر چلے وہ خوش بخت ہے اور جو دائیں بائیں مڑ جا ئے وہ گمراہی کے میدان میں بھٹکتا رہتا ہے، وہ خواہشات کے سراب کو پانی سمجھتا ہے، حتی کہ جب اس کے پاس آتا ہے تو وہاں اسے کوئی چیز نہیں ملتی۔ اسے وہاں شیطان ملتا ہے اور اس پر جھپٹ پڑتا ہے۔ ہم اس رسوائی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ تمہیں تمہارے پروردگار کی قسم! مجھے بتا ؤ کون سی نیکی ہے جس کی طرف وہ (صحابہ کرام) دوڑ کر نہیں گئے، ہدایت کا کون سا راستہ ہے جس پر وہ نہیں چلے؟ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یقینا انہوں نے حق کو اس کے میٹھے اور شیریں چشمے سے حاصل کیا۔ اسلام کی بنیادوں کو مضبوط کر دیا اور کسی کے لیے اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ چراغ نبوت سے انہوں نے جو کچھ وراثت میں پایا اسے خالص اور صاف