کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 298
روزِ روشن کی طرح نہایت واضح راستہ قرآن و سنت والے حق کی نشانیوں اور مضبوط دلیل کی وضاحت کرنے والا ہے۔ ان علاماتِ حق اور دلائل میں سے ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے۔ فرمایا: ۲…((مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ))… ’’جماعت منصورہ و فرقہ ناجیہ کا وہ منہج و عمل اور سیدھا راستہ ہو گا جس پر (آج) میں اور میرے صحابہ کرام ہیں ۔‘‘( رضی اللہ عنہم اجمعین ) اور یہی وہ طریق و منہج ہے کہ جس کا مفہوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوسرا فرمانِ گرامی یوں بیان کر رہا ہے: ((فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ۔)) ’’اس لیے تم لوگوں پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کے منہج و طریق کو عملاً مضبوطی سے تھامے رکھنا۔‘‘ اس لیے کہ جس راستے اور منہج پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے وہ تو آپ کی (منزل من اللہ)سنت مطہرہ تھی۔ اور جس منہج و طریق پر آپ کے صحابہ کرام تھے ، وہی راستہ تو ایسا منہج تھا کہ جو ہدایت یافتہ خلفائے راشدین اور ان عاملین علماء کرام رحمہم اللہ جمیعاً کا طریق تھا کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی پیروی و اتباع کرنے والے لوگوں کا اس سے قبل رہا اور قیامت تک رہے گا۔ ۳…میں اس توجیہ و استدلال میں بدعت کامرتکب نہیں ہوا کیوں کہ مجھ سے پہلے بہت سے ائمہ عظام نے اس کی طرف اشارہ فرما یا ہے ، البتہ میں نے اسے وضاحت و تفصیل اور دلائل کے ساتھ مزین کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ مومنین کا راستہ واضح ہو جائے۔ چنانچہ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کو اپنی صحیح میں جلد: ۱ صفحہ: ۱۰۴ پر باب ’’ان فرقوں میں سے جن میں امت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بٹ جا ئے گی، فرقہ ناجیہ کی صفات کا بیان ‘‘ کے تحت بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :