کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 297
میں سے ہو گا۔ اس طرح عرباض بن ساریہ اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم کی مذکور بالا دونوں حدیثیں استدلال و استنباط میں منہج صحابہ کو ثابت کرنے میں متفق ہیں اور اس کی صورت یہ ہے کہ جو شخص ان دونوں حدیثوں میں غور کرے گا وہ دیکھے گا کہ یہ دونوں ایک ہی مسئلہ کے متعلق ہیں اور ان دونوں کا مقام صدور بھی ایک ہی ہے۔ کیوں کہ جس راہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے ۔ چنانچہ جس پر آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم چلتے رہے وہ بھی آپ کی سنت ہے اور یہی خلفائے راشدین اور قیامت تک آنے والے علماء امت کی سنت ہے۔ اس ضمن میں حق سچ فہم وہی ہے کہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحابِ اطہار تھے رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ چنانچہ نقاط میں اس بات کو ہم یوں بیان کرتے ہیں : ۱…کیا آپ نے غورو فکر نہیں کیا کہ: سیّدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ والی حدیث صراحت کر رہی ہے۔ فرمایا:’’اے میرے صحابہ! تم میں سے جو لوگ ( میرے بعد) زندہ رہیں گے وہ ملت ہیں (مسائل دین میں ) بہت زیادہ اختلاف دیکھیں گے۔ مگر تم لوگ دین میں نئی چیزیں ایجاد کرنے سے بچنا۔ اس لیے کہ بلاشبہ یہ گمراہی ہے۔‘‘ تو میرے محترم مسلم بھائی! آپ مجھے علم کی رُو سے بتلائیے! کیا اس حدیث عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ میں مذکور ’’بہت زیادہ اختلاف‘‘ سے مراد امت کا فرقوں میں بٹ جانا نہیں ہے؟ حتی کہ ان کی تعداد (آج) ستر سے زیادہ کو پہنچ گئی اور ان میں سے ہر ایک گمراہی اور بدعات و خرافات کی راہ پر چل رہا ہے، سوائے ایک کے۔ اور وہی نہایت واضح راستہ پر قائم جماعت حقہ ہے۔ یعنی قرآن و سنت والا وہی۹ نہایت واضح اور روشن راستہ کہ جس سے ٹیڑھ پن صرف ہلاک ہونے والا ہی اختیار کر سکتا ہے۔ نہ ہی اس سیدھی راہ سے کوئی تجاوز کر سکتا ہے مگر صرف گمراہ آدمی۔ تو سلف صالحین کی راہ حق پر گامزن اے سلفی جماعت حقہ کے خوش نصیب لوگو! تمہارا یہ