کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 296
۲…(( لَیَأْتِیَنَّ عَلیٰ أُمَّتِي مَا أَ تیٰ عَلیٰ بَنِيْ اِسْرَائِیْلَ مِثْـلًا بِمِثْلٍ، حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّی لَوْ أَنَّ فِیْھِمْ مَنْ نَکَحَ أُمَّہُ عَلَانِیَۃً کَانَ فِي أُمَّتِيْ مَنْ یَفْعَلُ مِثْلَہُ۔ اِنَّ بَنَي اِسْرَائیْلَ تَفَرَّقُوْ ا عَلیٰ اِحْدٰٰی وَسَبْعِیْنَ مِلَّۃً،وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلیٰ ثَلَاثٍ وَّسَبْعِیْنَ مِلَّۃً کُلُّھَا فِيْ النَّارِ اِلاَّ مِلَّۃً وَاحِدۃً۔ فَقِیْلَ لَہُ: مَا الْوَاحِدَۃُ ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَیْہِ الْیَوْمَ وَأَصْحَابِيْ۔)) ’’میری امت پر لازماً بالکل ویسے ہی حالات آئیں گے جیسے بنی اسرائیل پر آئے تھے، جیسے جوتا جوتے کے برابر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے نکاح کیا ہو گا تو میری امت میں سے کوئی شخص ایسا کرے گا۔ بے شک بنی اسرائیل ۷۲فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی اور میری امت ۷۳فرقوں میں بٹ جائے گی، سب کے سب جہنم میں جا ئیں گے سوائے ایک فرقہ کے۔ پوچھا گیا: وہ ایک فرقہ کون سا ہے؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو اس طریقے پر ہوں گے جس پرا ٓج میں ہو ں اور میرے صحابہ ہیں ۔ ‘‘[1] بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں وضاحت فرما دی ہے کہ طائفہ منصورہ وہ گروہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اوصاف سے متصف ہو۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ ان کی تعریف اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں بھی اور ان کے مقتدا و رہنما نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کی ہے جس کا راستہ قرآن و سنت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس راہ کے تمام لوگوں سے زیادہ حق دار ہیں ۔ چنانچہ جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنت میں جانے والے، نجات پانے والے گروہ
[1] شواہد کی وجہ سے حسن ہے، جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ’’درء الارتیاب عن حدیث ما أنا علیہ والأصحاب‘‘ مطبوعہ دار الرایہ (الریاض) میں وضاحت ہے۔