کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 295
چنانچہ اس حدیث کا کم از کم فائدہ یہ ہے کہ جو کام خلفاء اپنی رائے اور اجتہاد سے کریں ، اگرچہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سنت ہو تی ہے، جیسا کہ پیچھے وضاحت ہوچکی ہے۔ پھر بھی وہ کوئی اور دلیل نہ ملنے کی صورت میں دوسروں کی رائے سے بہتر اور مقدم ہو گی۔ الغرض، بہت سے ایسے مواقع ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں ہی کسی کام کے کرنے یا چھوڑنے کی نسبت اپنی طرف یا اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف کی حالاں کہ آپ کا اپنی طرف نسبت کرنے کے ساتھ ساتھ کسی اور کی طرف بھی اس فعل کی نسبت کرنے کا بظاہر کوئی فائدہ نظرنہیں آتا کیوں کہ اصل نمونہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے۔ مجھے تو اس حدیث کی یہی تفسیر سمجھ آئی ہے اور اس کو لکھتے وقت میرے سامنے اہل علم میں سے کسی کا کلام نہیں تھا جو اس کے مطابق ہو۔ لہٰذا اگر یہ درست ہے توا للہ تعالیٰ طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف ہے اور میں اللہ بزرگ و بر تر سے بخشش طلب کرتا ہوں ۔ ‘‘ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ تحفہ الاحوذی ‘‘ (۳/۵۰،۵۱) میں امام صنعانی رحمہ اللہ کا بہت اچھا قول نقل کیا ہے: حدیث؛ ((وَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِی وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِیْنَ مِنْ بعْدِیْ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَعَضُّوْاعَلَیْھَا بِالنَواجذ)) میں ،خلفاء راشدین کی سنت سے مراد ان کاصرف وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کے مطابق ہو۔ مثلاً دشمنوں سے جہاد اور دین کے شعائر کوقوت دینے کے معاملات۔ چنانچہ یہ حدیث ہر خلیفہ راشد کے حق میں عام ہے، صرف شیخین (ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما )کے ساتھ خاص نہیں ۔ اور یہ بات شریعت کے قواعد سے معلوم ہے کہ کسی خلیفہ راشد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے ہٹ کر کوئی چیز شریعت میں داخل کرے۔ الغرض خلفائے راشدین کی سنت سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دین کا فہم ہے، کیوں کہ وہ دین کے فہم اور اس پر عمل کرنے میں اپنے پیغمبر گرامی قدر صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہی چلتے تھے۔ اس بات کی وضاحت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث کرتی ہے۔ جناب عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :