کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 294
’’اہل علم نے اس مسئلہ میں بہت لمبی چوڑی بحثیں کی ہیں اور اس کی کئی تاویلات کی ہیں جن میں سے اکثر تکلف ہیں ، لیکن ان میں سے قابل عمل وہ معنیٰ ہے جو عربی زبان کے تقاضوں کے مطابق ہے۔ چنانچہ سنت کامعنیٰ ہے طریقہ۔ تو گویا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے : ’’تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو۔‘‘ ان کا طریقہ وہی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کیوں کہ وہ لوگو ں میں سب سے زیادہ سنت نبوی کو اختیار کرنے کا شوق رکھتے تھے اور ہر چیز میں اس پر عمل کرتے تھے۔ وہ تو چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت سے بچتے تھے چہ جائیکہ بڑے معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے۔ جب انہیں کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی دلیل نہ ملتی تو غورو خوض، باہمی مشورہ اور تلاش و بسیار کے بعد وہ جس نتیجے پر پہنچتے اس پر عمل کر لیتے۔ لیکن ایسا دلیل نہ ملنے کی صورت میں کرتے تھے اور یہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اعتراض: اگر آپ کہیں کہ جب وہ چیزیں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں جن پر خلفاء اپنی رائے سے عمل کرتے تھے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی ؛((وَسُنَّۃَ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ۔))کا کیا فائدہ ہوا ؟ جواب: تو ہم کہیں گے کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہ پایا اور خلفائے راشدین کا دور پا لیا ہو یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین ہر دو کا دور پا یا ہو اور پھر خلفائے راشدین نے کوئی ایسا کام کیا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہیں تھا، اس صورت میں بعض لوگوں کے دلوں میں جو شکوک اور بدگمانیاں پیدا ہوں ان کے خاتمے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں خلفاء کی سنت کی طرف راہنمائی کی ہے۔