کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 292
دی ہے۔ لیکن اس کا کوئی بھی مسلمان قائل نہیں اور جو اس کام کو جائز سمجھے وہ کافر اور مرتد ہے۔اس کا مال و جان حلال ہے۔ اس صورت کے ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دین کا ہر حکم یا تو واجب ہے، یا غیر واجب، یا حرام یا حلال۔ ان اقسام کے علاوہ دینی احکام کی کوئی قسم نہیں ۔ تو جو کوئی خلفائے راشدین کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے علاوہ کوئی اور سنت جاری کرنا جائز سمجھے گو یا وہ خلفائے راشدین کے لیے ان چیزوں کو حلال کرنا جائز قرار دیتا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حرام تھی۔ اور ان چیزوں کو حرام کرنے کا اختیار دیتا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک حلال تھی۔ یا ان چیزوں کو فرض کرنے کی اجازت دیتا ہے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نہیں کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی فرض کردہ چیز کو ساقط کرتا ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک ساقط نہیں کیا۔ اور جو شخص ان تمام باتوں میں سے کسی ایک چیز کو بھی جائز قرار دیتا ہے تو بلا اختلاف تمام امت کا اجماع ہے کہ وہ کافر اور مشرک ہے۔ چناں چہ ثابت ہوا کہ یہ صورت ناجائز ہے۔ ۲… دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی اقتداء کے سلسلے میں ان کے نقش قدم پر چلنے کاحکم ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ اس حدیث میں مذکورہ دوسری صورت کے علاوہ اور کوئی احتمال نہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحرانی رحمہ اللہ ’’ مجموع الفتاویٰ ‘‘ (۱/۲۸۲) میں فرماتے ہیں : ’’خلفائے راشدین نے ہر سنت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہی اختیار کی ہے چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی سنت ہوئی۔ لہٰذا دین میں صرف وہی چیز واجب، حرام، مستحب، مکروہ یامبا ح ہے جس کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے واجب، حرام، مستحب، مکروہ یا مباح قرار دیا ہے۔‘‘