کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 290
قول پر عمل کرتے ہوئے (وراثت کے مسئلہ میں )بھائیوں کو محروم کر کے دادا کو وارث بنائیں ۔ عمر رضی اللہ عنہ کے قول پر بھی عمل کریں اور دادا کو کل مال کا تیسرا حصہ دے کر باقی بھائیوں کو دے دیں ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول پر بھی عمل کریں اور دادا کو چھٹا حصہ دے کر باقی بھائیوں کو دیں ۔ یہی صورت حال ان تمام مسائل کی ہے جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم کا باہم اختلاف ہے۔ چنانچہ اس صورت پر عمل نہیں ہو سکتا کیوں کہ یہ لوگوں کی طاقت سے باہرہے۔ ۲…دوسری صورت یہ ہے کہ ہمیں اختیار دے دیا جائے : ہم ان میں سے جس کی بات کو چاہیں اختیار کر لیں ۔ لیکن اس طرح انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارے اختیار میں ہے اور ہم جس چیز کو چاہیں حلال کردیں ، جسے چاہیں حرام کر دیں ۔ اور اگر ایک شخص کسی چیز کو حلال کرے تو دوسرا اسے حرام کر دے۔ جب کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ ’’ آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا ہے۔ ‘‘ اور ارشار باری تعالیٰ ہے: ﴿ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْہَا ﴾ ’’ یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان سے آگے مت بڑھو۔ ‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا ط﴾ ’’ اور آپس میں جھگڑا مت کرو۔ ‘‘ ان تمام آیات مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ صورت بھی نا جا ئز ہے۔ اور یہ کہ جو چیز اس وقت حرام تھی وہ قیامت تک حرام رہے گی، جو چیز اس وقت واجب (فرض) تھی وہ قیامت تک کے لیے فرض ہے۔ اور جو چیز اس وقت حلال تھی وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے۔