کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 289
اے میرے مومن بھائی! اللہ تعالیٰ تمہاری حق کی طرف راہنمائی فرمائے! یہ بات خوب جان لو کہ : اوپر حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ جو خلفائے راشدین کے طریقہ کا ذکر فرمایا تو اس عطف کا یہ مطلب نہیں کہ خلفائے راشدین کی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے علاوہ تھی بلکہ انہوں نے مکمل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کی۔ اسی لیے انہیں ہدایت اور رشد کے اوصاف کے ساتھ متصف کیا گیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف سنت کی نسبت اس لیے کی ہے کہ وہی اس کے زیادہ حق دار اور سب سے زیادہ اس کو سمجھنے کے قابل اور اہل سنت والجماعت تھے۔ فہم صحابہ متواتر منقول ہے اہل علم نے یہ فہم تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے۔ ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ اپنی عظیم کتاب ’’ الاحکام فی اُصول الاحکام ‘‘ (۶/۷۶۔ ۷۸) میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، جہاں تک حدیث ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْن۔))کا تعلق ہے تو ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چیز کا حکم نہیں دیتے تھے جس پر انسان کوقدرت نہ ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین میں ہمیں سخت اختلاف نظر آتا ہے لہٰذا تین صورتوں میں سے ایک ہو سکتی ہے۔ چوتھی کوئی نہیں ۔ ۱… یا تو ہم اختلاف کی صورت میں سب کی بات پر عمل کریں ۔اور یہ ممکن نہیں ۔ کیوں کہ دو مختلف باتوں پر عمل نہیں ہو سکتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم حضرت ابو بکر اور عائشہ رضی اللہ عنہما کے