کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 281
اس کے علاوہ انہیں اہل الجماعت اس لیے کہا جا تا ہے کہ جماعت سے مراد ہے: اجتماع (اکٹھ) اور اس کی ضد فرقہ ہے، اگرچہ جماعت کا لفظ اب بذات خود جمع ہونے والے لوگوں کا نام بن چکا ہے۔ اجماع وہ تیسری بنیاد ہے جس پر علم اور دین کے معاملہ میں اعتماد کیا جا تا ہے۔ اہل سنت والجماعت انہی تین اصولوں پرتمام لوگوں کے دین سے متعلقہ، ظاہری و باطنی اقوال و اعمال کو پرکھتے ہیں ۔ اور اجماع سے مراد وہ بات ہے جو منضبط ہو اور اس پر سلف صالحین تھے۔ کیوں کہ ان کے بعد اختلافات بہت زیادہ ہوگئے ہیں اور امت منتشر ہو چکی ہے۔ ’’ منہاج السنہ ‘‘ میں شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے یہ وضاحت کی ہے کہ ان کا مذہب پرانا ہی ہے اور وہ کسی فرد یا گروہ کی طرف منسوب نہیں ہوتے۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں : ’’ اہل سنت والجماعت کامذہب قدیم ہے اور وہ اس وقت بھی معروف تھے جب اللہ تعالیٰ نے ابھی امام ابو حنیفہ ، شافعی ، مالک اور احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہم کو پیدا نہیں کیا تھا ۔ کیوں کہ یہ تو صحابہ کا مذہب ہے جو انہوں نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا۔ اور جو بھی اس مذہب کی مخالفت کرے اہل سنت کے نزدیک وہ بدعتی ہے۔ پھر وہ اہل سنت والجماعت کی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف نسبت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر چہ اما م احمدبن حنبل رحمہ اللہ اہل سنت کی امامت اور مصیبت میں صبر کرنے کی وجہ سے مشہور تھے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے کوئی منفرد بات کی تھی یا نئی بات کہی تھی بلکہ وہ اس حیثیت سے اس لیے مشہو ر تھے کہ انہوں نے پہلے سے موجود اور معروف سنت کا علم حاصل کیا، اس کی طرف دعوت دی اور جس نے آپ کو اس دعوت سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی آپ رحمہ اللہ نے اسے ناکام کر دیا۔ ۲…اہل سنت والجماعت ہی فرقہ ناجیہ ، طائفہ منصورہ اور اہل حدیث ہیں شیخ الاسلام ’’مجموع الفتاوی‘‘(۳/۱۲۹) میں فرماتے ہیں : ’’حمدو ثناء کے بعد! پس تا قیامت فرقہ ناجیہ منصورہ یعنی اہل سنت والجماعت کا