کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 278
[1]ہر طرح کی حمد و ثنائے جمیل اس اللہ تعالیٰ کے لیے ہے کہ جس نے اس جماعت کو مکمل اسلام میں داخل فرمایا ، ہر قسم کی عزت دی اور اپنے اور اپنے رسول گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کی
[1] ( اسے ’’ الزھد ‘‘ (صفحہ:۶۱) میں اور الالکائی نے درج ذیل سند کے ساتھ ’’ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ میں (صفحہ: ۱۰۲) ذکر کیا ہے: (( عن ابن لہیعۃ عن بکر بن سوادہ عن ابی امیۃ الجمحي۔)) … میں کہتا ہوں : یہ سند صحیح ہے، کیوں کہ ابن لھیعہ جب عباد لہ کی سند سے بیان کرے تو وہ صحیح ہوتی ہے اور ابن مبارک عباد لہ میں سے ہیں ،ابن مبارک فرماتے ہیں : اصاغر سے مراد اہل بدعت ہیں ، اور ابن مسعود کی حدیث اس کی ’’ شاہد ‘‘ ہے جو کہ مرفوع کے حکم میں ہے، کیونکہ یہ بات رائے اور اجتہاد سے نہیں کی جاسکتی اس کے الفاظ یہ ہیں : (( لَا یَزَالُ النَّاسُ بِخَیْرِ مَا أَتَاہُمُ الْعِلْمُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ وَأَکَابِرِہِمْ ، فَإِذَا أَتَاہُمُ الْعِلْمُ مِنْ قِبَلِ أَصَاغِرِہِمْ فَذٰلِکَ حِیْنَ ہَلَکُوْا۔)) … ’’ مسلمان اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں اور اپنے بڑوں سے علم حاصل کرتے رہیں گے اور جب وہ اپنے ذلیل لوگوں سے علم حاصل کرنا شروع کر دیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے۔ ‘‘ اس حدیث کو ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے صفحہ : ۸۵۱ پر اور الالکائی نے صفحہ: ۱۰۱ پر ذکر کیا ہے۔ اگر کہا جا ئے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: ’’ اس علم کو ہر بعد میں آنے والے سے اس کے برابر کا آدمی حاصل کرے گا وہ اس کے غلو کرنے والوں کی تحریف، پراپیگنڈہ کرنے والوں کی کوششوں اور جہلاء کی تاویلات سے پاک کریں گے۔ تو ہم کہیں گے: یقیناً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: لیکن کیا آ پ نے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کا وہ قول نہیں پڑھا جو انہوں نے اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد ’’تہذیب الاسماء واللغات ‘‘ (۱/۱۷) میں فرمایا ہے کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں علم کی حفاظت اور اس کو نقل کرنے والوں کی دیانتداری بیان فرمائی ہے، کہ اللہ تعالیٰ اس علم کی حفاظت کے لیے ہر زمانے میں ایسے لوگ پیدا کرتے رہیں گے جو اس کو اٹھاتے ہیں اور تحریف سے پاک کرتے ہیں ۔ اور جو لوگ ان کے بعد آتے ہیں ، وہ اسے ضائع نہیں کرتے۔ یہ ہر زمانے میں اس علم کو حاصل کرنے والوں کی دیانتداری کی دلیل ہے۔ اور الحمد اللہ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا رہا ہے۔ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی ہے لہٰذا اگر بعض فاسق (گنہگار) لوگ بھی تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حدیث میں تو اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ اس علم کے حاملین دیانتدار ہوں گے اور یہ مقصود نہیں کہ ان کے علاوہ کسی کے پاس علم نہیں ہو گا۔ (واللہ اعلم) میں نے اس مسئلہ کو مزید تفصیل کے ساتھ ’’ حلیۃ العالم المعلم وبلغۃ الطالب المتعلم ‘‘ میں بیان کر دیا ہے۔ اور یہ کتاب دارالتوحید۔ الریاض نے شائع کی ہے۔ یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، جیسا کہ میں نے ایک الگ رسالہ ’’ تحریر النقول فی تصحیح حدیث العدول ‘‘ میں وضاحت کی ہے۔