کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 275
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ نسبت صرف اسی وقت حقیقی ہو گی جب اس کا دعویٰ کرنے والے کا عمل ، منہج نبوی کے مطابق ہو۔ کیا کوئی باشعور شخص اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ سلفیت کا محض دعویٰ (یا بلندی اور پستی کے اعتبار سے پالینے اورچھوڑنے کے اعتبار سے منہج سلف کے بارہ میں تذبذب کا شکار ہونا) غلطی کو کم کر سکتا، شک کو دور کر سکتا یا فضیلت کا باعث بن سکتا ہے؟ جیسا کہ ایسا کوئی شخص چاہتا ہو۔ یہ نسبت اپنے دعویٰ کرنے والے سے اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنے دعویٰ کی عملی تصدیق پیش کرے تاکہ اس کا دعویٰ سچا ثابت ہو اوراس میں کوئی جھول نہ ہو۔ کوئی بھی انسان صدیاں بیتنے اور نسلیں گزرنے کے باوجو د بھی اپنے اس نسبت کے دعویٰ میں سچا نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے عقیدہ ، عمل اور عبادت میں اس حد تک منہج نبوی سے نہ جڑ جائے کہ اس سے صادر ہو نے والا ہر عمل سنت کے مطابق ہو اور وہ ہمیشہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرے حتیٰ کہ وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ شیخ الاسلام پر رحم فرمائے، انہوں نے یہ ساری بات ایک عمدہ جملے میں کس قدر شان دار انداز میں جمع فرمادی۔ چنانچہ ’’مجموع الفتاویٰ ‘‘(۴/۹۵) میں وہ فرماتے ہیں : ’’اہل حدیث سے ہماری مراد وہ لوگ نہیں جو حدیث کو بیان کرنے ، سننے اور لکھنے تک محدود رہتے ہیں بلکہ اس سے ہماری مراد ہر وہ شخص ہے جو اس کو حفظ کرتا ، اس کی معرفت حاصل کرتا اور اس کے ظاہری اور پوشیدہ مفہوم کو سمجھتا اور ظاہر و باطن میں اس کی پیروی کرتا ہے۔ یہی حال اہل قرآن کا ہے۔ ‘‘ ’’اور ان میں کم ازکم خصوصیت قرآن وحدیث کی محبت ، ان کے معانی کے بارے میں بحث و مباحثہ کرنا اور اس سے معلوم ہونے والے احکام پر عمل کرنا ہے۔ چنانچہ حدیث کے فقہاء دوسرے فقہاء سے زیادہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق