کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 265
مستفیض ہیں ۔ ۳…بُرے لوگوں میں رہنے والے اچھے لوگ، جن کے نافرمان ان کے فرمانبرداروں سے زیادہ ہوں گے: مذکورہ بالا تفسیر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن سبکی نے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی کو بیان کرتے ہوئے اپنی کتاب طبقات شافعیہ (۴/ ۱۴۵) پر اس حدیث کو احیاء علوم الدین کی ان احادیث کے باب میں ذکر کیا ہے، جن کی کوئی اصل نہیں ہے۔ لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ہے۔ اور یہ ان کا قبیح وہم ہے، کیونکہ یہ حدیث مسند امام احمد میں بھی موجود ہے۔ ۴…وہ جو انہی چیزوں پر تمسک کریں گے، جن پر تمہارا (صحابہ رضی اللہ عنہم کا) تمسک ہے۔ اس روایت کو امام غزالی نے احیاء علوم الدین (۱/۳۸) پر ذکر کیا ہے۔ حافظ عراقی اس کے بارے میں فرماتے ہیں : اس تفسیر کی کوئی اصل (دلیل) نہیں ہے۔ سبکی نے اس حدیث کو ان احادیث کے تحت ذکر کیا ہے جو احیاء علوم الدین میں ہیں ، لیکن ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : معاملہ اسی طرح ہے، جس طرح عراقی اور سبکی نے فرمایا ہے۔ ۵… اپنے دین کو بچا کر بھاگ جانے والے، اللہ قیامت کے دن ان لوگوں کو عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کھڑا کرے گا۔ یہ تفسیر عبداللہ بن عمرو کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، جو کہ سنداً کمزور ہے۔ ۶… وہ لوگ جو میری سنت کو لوگوں کے بگاڑ کے باوجود زندہ رکھیں گے۔ یہ تفسیر کثیر بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ سے مروی ہے۔ اس کی سند کمزور ہے۔ ۷… وہ لوگ جو کہ اس وقت بڑھتے جائیں گے، جب لوگ کم ہوجائیں گے۔ یہ تفسیر مطلب بن حنطب کی مرسل روایت کے مطابق ہے۔ ۸… صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اسلام غریب کیسے ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم