کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 259
﴿اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَــلَا یَسْتَطِیعُوْنَ سَبِیْلًا ﴾ (الفرقان:۹) ’’(محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) خیال تو کیجئے! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں ۔ حالانکہ اس سے خود یہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راہ پر نہیں آسکتے۔‘‘ اسی طرح اہل بدعت نے (اللہ تعالیٰ ان کو رسوا کرے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو نقل کرنے والوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو بیان کرنے والوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخبار کے حاملین، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرنے والوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی راہ پر چلنے والوں کے بارے میں … جو اہل حدیث کے نام سے معروف ہیں … مختلف قسم کی باتوں کہیں ۔ چنانچہ کوئی انہیں خس و خاشاک کہتا ہے ۔ کوئی مشبہہ بتلاتا ہے ، کوئی انہیں نو خیز کہتا ہے ، کوئی ان کو لا چار کہتا ہے اور کوئی جبریہ کے نام سے موسوم کرتا ہے۔ جب کہ اہل حدیث ان تمام عیوب سے پاک صاف اور بری ہیں ۔ وہ تو سراسر روشن سنت والے، پسندیدہ سیرت والے، سیدھے راستے والے اور مضبوط وپختہ دلائل رکھنے والے ہیں ۔ اللہ عزو جل نے انہیں اپنی کتاب اور وحی کی اور اپنے انتہائی قریبی دوستوں کی اتباع کی توفیق دی ۔ انہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کی پیروی کی توفیق عطا کی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اچھے قول و عمل کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور برے قول و عمل سے منع کیا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانے میں اور آپؐ کی سنت سے صراط مستقیم پانے میں ان کی مدد کی۔ میں کہتا ہوں : جیسے تمام اقوام امت مسلمہ کے خلاف ایک دوسرے کو دعوت دے رہے ہیں ، ایسے ہی بدعتی فرقے اہل حدیث اور اسلاف پر کتوں کی طرح جھپٹ پڑے ہیں ۔ کیوں کہ یہ اسی طرح ان فرقوں میں سے نمایاں ہیں جس طرح امت اسلام تمام اقوام میں سے نمایاں ہے۔ جیسا کہ ان کے اسلاف رافضہ ، خوارج اور قدریہ نے اس سے پہلے ہمارے اسلاف اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے ساتھ کیا۔