کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 253
بیان کردہ احادیث کے محمولات نے عوام الناس کے وہم اور فقہاء کے انصاف کے توہم پر ڈالے ہیں ۔ اور ان شبہات کا خاتمہ کر دیں گے جنہیں گمراہ فرقوں کے ہرکارے ہوا دیتے ہیں ، وہ لوگ کہ جنہوں نے ان احادیث کو محض اس دعویٰ کے ساتھ رد کر دیا کہ ’’یہ خلاف واقعہ ہیں ۔ کیوں کہ یہ امت اسلامیہ کی اکثریت پر جہنم میں داخل ہونے کا حکم لگاتی ہیں ۔ ‘‘ محض اپنی طرف سے یہ گمان کرتے ہوئے کہ امت اسلامیہ کی اکثریت اپنی تمام تر بدعتوں اور گمراہیوں کے باوجود دیندار ہے۔ اور انہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ امت اسلامیہ کی اکثریت کو فطرت سلیمہ عقیدہ صحیحہ کی طرف کھینچتی ہے۔ اسی لیے مذہب خلف کے سربراہوں نے بوڑھی عورتوں کے دین پر مرنے کی تمنا کی ہے۔ [1] اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طائفہ منصورہ وہی ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے منہج پر ہو۔ اس لیے کہ یہی جماعت حق پر ہے۔ اور حق وہی ہوتا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب ہوں ۔چنانچہ جو شخص اس منہج پر قائم رہا کہ جو فرقہ بندی سے پہلے جماعت کا منہج تھا۔ وہ اکیلا ہو تو بھی وہ اکیلا ہی جماعت ہو گا۔ اس سے فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کی علامات واضح ہیں ؛ ۱…کتاب و سنت کو اسلاف امت کے فہم کے ساتھ سمجھنا۔ اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ کے رفقاء اور قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ ۲… اس فہم پر امت کو اکھٹا ہونے کی دعوت دینا۔ کیوں کہ یہی اللہ تعالیٰ کی رسی کو تھامنا ہے۔ ۳…وہ اس امت کی عظمت گم گشتہ کو بحال کرنے اور اس کی مطلوبہ آرزو کو پورا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ کیوں کہ اس دین کی بنیاد فطرت پر رکھی گئی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے حکم کو نافذ کرنے والا ہے۔ جہاں تک فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کی صورت حال کا تعلق ہے تو اس کی چار صفات
[1] شاید یہ امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے واقعۂ وفات کی طرف اشارہ ہو، جنہوں نے کہا تھا کہ میں نیشا پور کی بوڑھی عورت کے عقیدے پر جان دیتا ہوں ۔ واللہ اعلم (مترجم )۔