کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 252
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے والا ہو۔ جو اس کے ساتھ ہو ں اور اس کی پیروی کریں وہی جماعت ہیں ۔ ‘‘[1] امام شاطبی رحمہ اللہ اپنی نہایت شاندار کتاب ’’ الاعتصام ‘‘ (۲/ ۲۶۷) میں اسی صحیح اور سنت کے مطابق مفہوم کی تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ آپ اس کی حکایت پر غور کریں تو وہ اس غلطی کو واضح کر دے گی کہ جماعت سے مراد لوگوں کی جماعت ہے خواہ ان میں کوئی عالم نہ ہو۔ لیکن یہ عوام الناس کی سوچ ہے علماء کی نہیں ۔ لہٰذا جس شخص کو توفیق ملی ہو وہ اس کھائی میں قدم جمائے رکھے تاکہ وہ سیدھے راستے سے نہ بھٹک جائے۔ اور توفیق صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ لالکائی رحمۃ اللہ علیہ ’’ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ (۱/ ۲۵) میں طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’منکرین ان پر غصہ کرتے ہیں حالانکہیقینا یہی لوگ ’’سواد اعظم ‘‘اور ’’جمہور اکثر ‘‘ ہیں ۔ ان میں علم و حکمت ، عقل و حلم ، خلافت و سرداری اور بادشاہت و سیاست ہوتی ہے۔ یہ اجتماعات اور مجالس منعقد کرنے والے ، جماعتوں اور مسجدوں سے تعلق رکھنے والے ، عیدوں اور مناسک کو ادا کرنے والے اور حج اور جہاد کرنے والے ہیں ۔ اور انہوں نے ہر مقامی اور مسافر کے ساتھ بھلائی کی ، یہ سرحدوں کے محافظ اور سپہ سالار ہوتے ہیں جو اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کردیتے ہیں ۔ ‘‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ’’مجموع الفتاوی‘‘ (۳/۳۴۵) میں فرماتے ہیں : ’’اسی لیے فرقہ ناجیہ کی یہ صفت بیان کی کہ وہ اہل سنت والجماعت ہیں ، یہی اکثر جمہور اور سواداعظم ہیں ۔ ‘‘ میں کہتا ہوں :محترم بھائی! ان گراں مایہ الفاظ پر غور کراور ان کو یاد کر لے کیوں کہ یہ تجھ سے ان اشکالات کو رفع کر دیں گے جو فرقہ بندی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیچھے
[1] ابو نعیم نے اسے ’’ حلیۃ الاولیاء ‘‘ (۹/ ۲۳۹) میں بیان کیا ہے۔