کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 251
غلط ہے۔ کیونکہ طائفہ ایک فرد بھی ہوسکتا ہے، ۳بھی ہوسکتے ہیں اور ۳سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ کیونکہ طائفہ ایک یا ٹکڑے کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے اور کبھی ’’قوم میں سے ایک ٹکڑا‘‘ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے۔ ‘‘ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (النور) ’’اور ان دونوں کی سزا پر مومنوں میں سے ایک گروہ حاضر ہو۔ ‘‘ اس سے ایک یا دو آدمی بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں : میری اس بات پر تو ائمہ لغت اور ائمہ دین متفق ہیں جیسا کہ میں نے اپنی کتاب ’’ الأدلۃ والشواہد علی وجوب الأخذ بخبر الواحد فی الأحکام العقائدۃ‘‘ (۱/۲۳) میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ لہٰذا کوئی شک نہیں کہ یہ طائفہ منصورہ ہی ’’الجماعہ‘‘ہے یہی ’’سواد اعظم‘‘ ہے کیوں کہ یہی ’’الجماعہ‘‘ہے۔ ابن حبان رحمہ اللہ اپنی صحیح میں جلد ۸صفحہ ۴۴پر فرماتے ہیں : ’’لزوم جماعت کے حکم کے الفاظ عام ہیں لیکن مراد خاص ہے کیوں کہ ’’جماعت‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اجماع کا نام ہے۔ چنانچہ جو شخص اس چیز کو لازم پکڑتا ہے جس پر وہ تھے اور ان کے بعد والے لوگوں سے علیحدہ مؤقف اختیار کرتا ہے تو وہ جماعت کو توڑنے والا نہیں اور نہ ہی وہ جماعت سے الگ ہونے والا ہے۔ لیکن جو شخص ان (صحابہ) سے علیحدہ مؤقف اختیارکرتا ہے تو وہ جماعت کو توڑنے والا ہے۔ صحابہ کے بعد ’’الجماعۃ‘‘ سے مراد ایسے لوگ ہیں جن میں دینداری ، عقل اور علم جمع ہوں اور وہ ترک خواہشات کو لازم پکڑیں ، خواہ ان کی تعداد کم ہی ہو ، نہ کہ اوباش اور گھٹیا لوگ خواہ ان کی تعداد زیادہ ہی ہو۔ ‘‘ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اگر آپ جاہل لوگوں سے سواد اعظم کے بارے میں پوچھیں تو وہ کہیں گے: اس سے مراد لوگوں کی جماعت ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ جماعت سے مراد وہ عالم ہے جو نبی