کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 25
جلانا ہے مجھے ہر شمع دل کو سوز پنہاں سے تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو جو مشکل ہے ، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھو ڑوں گا دکھا دوں گا جہاں کو جو میری آنکھوں نے دیکھا ہے تجھے بھی صورتِ آئینہ حیران کر کے چھوڑوں گا ٭٭٭ کیا رفعت کی لذت سے نہ دل کو آشنا تو نے گزاری عمر پستی میں مثال نقش پا تو نے رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو کیا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے صفائے دل کو کیا آرائش رنگ تعلق سے کف آئینہ پر باندھی ہے او ناداں ! حنا تو نے ٭٭٭ اے شب کے پاسبانو! اے آسماں کے تارو! تابندہ قوم ساری گردوں نشیں تمہاری چھیڑو سرود ایسا، جاگ اُٹھیں سونے والے رہبے ہے قافلوں کی تاب جبیں تمہاری آئینے قسمتوں کے تم کو یہ جانتے ہیں شاید سنیں صدائیں اہل زمیں تمہاری ٭٭٭