کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 234
امتیاز رکھتی ہے۔ بلکہ ان سب سے یکسر مختلف ہے حتی کہ اپنے ذاتی مزاج اور اخلاقی بیماریوں کے ذریعے بھی۔حالاں کہ منہج سلف میں اس بات کابالکل ہی دخل نہیں کیوں کہ سلفیت کا مطلب ہے : ’’ایسا اسلام جو قدیم تہذیبوں کی خصوصیات اور مختلف فرقوں کی خرافات سے بالکل پاک اور کتاب و سنت کی صورت میں کامل و اکمل اور فہم سلف کے مطابق ہو جن کی کتاب و سنت کی نصوص میں تعریف کی گئی ہے۔ ‘‘ پیچھے بیان کردہ گمان ایسے لوگوں کے توہمات کی پیداوار ہے جو اس بابرکت کلمہ طیبہ سے نکل گئے ہیں جس کی جڑیں اس امت کی تاریخ کے صفحات میں مستحکم ہیں حتیٰ کہ یہ سلسلہ ابتدائی دور تک جا پہنچتا ہے۔ یہاں تک یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لفظ اس تحریک اصلاح کی پیداوار ہے جس کا جھنڈا مصر پر انگریزی استعمار کے زمانے میں جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ نے اٹھایا تھا۔ [1]
[1] اس دعویٰ پر کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں :(۱)… جس تحریک کی بنیاد جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ نے رکھی تھی وہ سلفی تحریک نہیں بلکہ وہ تو صرف خلفی اور عقلی تحریک ہے۔انہوں نے عقل کو نقل پر حاکم بنا دیا ہے۔ (۲)…جمال الدین افغانی کی اصلیت کے متعلق بہت سی کتابیں منظر عام پر آئی ہیں اور اس کے مخالفین نے اس کے متعلق بہت سے شبہات پیش کیے ہیں جو اس کے پیرو کار کو اس کے بارے میں سوچنے اور اس سے بچنے پر مجبور کرتے ہیں ۔ (۳)… تاریخی حقائق سے محمد عبدہ کا ’’ فساد انگیز تحریک ماسونیت ‘‘ کے ساتھ تعلق ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ پیش کیا گیا ہے کہ یہ اس کیساتھ دھوکا ہوا تھا اور اسے اس کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ (۴)… افغانی اور محمد عبدہ کی تحریک کے ساتھ سلفیت کا تعلق جوڑنا سلفیت پر نری تہمت اور ان کی طرف سے لگائے گے الزامات اور اعتراضات میں سے ایک الزام ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔