کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 228
’’ اور اسی طرح سلف ان لوگوں کو بھی کہتے ہیں جو آپ کے آباؤ اجداد اور رشتہ داروں میں سے آپ سے پہلے گزر چکے ہوں ۔عمر اور مقام و مرتبہ میں آپ سے زیادہ ہوں ۔ اسی لیے صدر اول کے تابعین کو سلف صالحین کہا جا تا ہے۔ ‘‘ میں کہتا ہوں : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی فاطمۃ الزہراء کو یہ کہنا: (( فَاِنَّہُ نِعْمَ السَّلَفُ أَنَا لَکِ ۔)) [1] ’’ یعنی تیرے لیے بہترین توشہ میں ہوں ۔ ‘‘ اسی معنی میں ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کی وفات کے وقت یہ قول بھی مروی ہے۔ فرمایا: (( اِلْحَقِیَ بِسَلَفِنَا الصَّا لِحِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُوْنَ ۔)) [2] ’’تو ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعون سے مل جا۔‘‘ اصطلاحاً یہ صفت لازمہ ہے۔ جب اسے مطلق ذکر کیا جائے تو یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص ہوتاہے اور تابعین و تبع تابعین اس اصطلاح میں ان کے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔ قلشانی رحمہ اللہ ’’تحریر المقالہ من شرح الرسالۃ (ق:۳۶)‘‘میں فرماتے ہیں : ’’ سلف صالحین ابتدائی دور (صدر اوّل کے مسلمانوں ) کو کہتے ہیں جو علم میں پختہ، نبوی ہدایت پر چلنے والے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی حفاظت کرنے والے تھے۔ جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی محبت کے لیے چنا، اپنے دین کے قیام کے لیے منتخب کیا اور انہیں امت کی امامت کے لیے پسند فرمایا۔ انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کا حق ادا کر دیا ، امت کی خیر خواہی اور اس کے نفع کے لیے
[1] صحیح مسلم (۲۴۵۰) (۹۸)۔ [2] اسے احمد نے (۱/۲۳۷۔۲۳۸) اور ابن سعد نے ’’الطبقات‘‘ (۸/۳۷) میں بیان کیا ہے اور احمد شاکر نے ’’شرح المسند‘‘ (۳۱۰۳) پر اسے صحیح کہا ہے لیکن یہ درست نہیں ۔ ہمارے استاد علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اسے ’’الضعیفہ‘‘ ،حدیث: ۱۷۱۵ پر علی بن زید بن جدعان کی وجہ سے معلول کہا ہے۔