کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 224
مارے اور تیرا مال چھین لے پھر بھی تو اس کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔‘‘[1] یہ ایک ایسا حکم ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے اس سے لا علمی کی وجہ سے کہ جب خلافت کی سر زمین پر بعد میں آنے والے خلفاء کے ظلم و فساد کو دیکھا تو انہوں نے خلافت کے خاتمے کے لیے کفار سے معاہدوں کی کوشش شروع کر دی۔ انہوں نے اس بات کو بھلا دیا کہ ائمہ کے خلاف خروج اس وقت تک جائز نہیں جب تک ان میں کفر بواح یا شرک صریح نہ دیکھ لیں ۔ اس کے ثبوت کے لیے کتاب و سنت اور اسلاف کی آراء سے اخذ شدہ اصولوں کے تحت دیے گئے صالح علماء کے فتویٰ کی بطور دلیل ضروت ہو تی ہے۔ ۲…اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ گمراہ فرقوں اور فرقہ بندی والی جماعتوں سے الگ ہو جائے۔ ۳…گمراہ فرقوں سے الگ رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے مکمل طور پر الگ ہو کر باطل کو آزاد چھوڑ دیا جا ئے اور وہ بغیر کسی رکاوٹ کے حملے کرتا اور دندناتا پھرے، بلکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اس دین کے اصول (کتاب و سنت) کو تھامے رکھیں ۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور ان کے راستے پرچلنے والے ائمہ ہدایت کے فہم کے مطابق ان دونوں (کتاب و سنت )کو سمجھیں اور ان دو عظیم شرعی بنیادوں کی طرف انسانوں کو دعوت دیں کہ جن دونوں کی عنقریب زمین اور اہل زمین پر حکومت ہو گی۔ اس بات کا علم آپ کو کچھ عرصے کے بعد ضرور ہو جا ئے گا۔ اس لیے کہ گمراہ فرقوں کے وجود کا یہ مطلب نہیں کہ زمین اللہ کی حجت قائم کرنے والوں سے خالی ہوچکی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متواتر احادیث میں اس بات کی خبر دی ہے کہ قیامت تک حاملین حق کا ایک گروہ باقی رہے گا جن کو ان کے مخالفین اور ان کو ذلیل کرنے والے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔
[1] اسے مسلم نے بیان کیا ہے۔ (۱۲/ ۳۳۶۔ ۳۳۷۔ نووي)۔