کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 222
اور حق کی بنیاد پر باہمی تعاون کو واجب قرار دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل ہے۔ ۱…یہ سلف صالحین والے فہم کے مطابق کتاب و سنت کو لازم پکڑنے کا حکم ہے۔ اس پر جناب عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں مذکورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دلالت کرتا ہے: (( مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ فَسَیَرٰی اِخْتِلَا فاً کَثِیْرًا، وَاِیَّا کُمْ وَمُحَدَثَاتِ الْاُمُوْرِ؛ فَاِنَّہَا ضَلَالۃٌ، فَمَنْ أدْرَکَ ذٰلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ عضُّوُا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ۔)) [1] ’’ تم میں سے جو شخص زندہ رہے گاوہ عنقریب بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، تو تم نئی نئی باتیں گھڑنے سے بچنا، کیونکہ یہ گمراہی ہے۔ اور تم میں سے جو شخص اس زمانے کو پائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ میرا اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کا طریقہ اختیار کرے اور اسے مضبوطی سے دبوچے رکھے۔ ‘‘ حدیث حذیفہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اختلاف کی صورت میں تمام گمراہ فرقوں سے الگ ہو کر درخت کی جڑ پر دانت گاڑ دیں ۔ اور حدیث عرباض میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب عرباض رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اختلاف کے وقت فہم صحابہ کے ساتھ سنت نبوی کو دانتوں سے دبوچے رکھیں (یعنی سختی سے سنت نبوی پر کار بند رہیں ) اور یہ کہ وہ بدعتوں سے دور رہیں کیوں کہ بدعات گمراہی ہیں ۔ جب ہم دونوں حدیثوں کو جمع کریں تو بہت عمدہ معنیٰ ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جماعت المسلمین اور ان کے امام کی عدم موجودگی میں گمراہ فرقوں کے ظہور کے وقت سلف صالحین رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق سنت نبوی کو مضبوطی سے تھا مے رکھنا۔ ۲…اس مفہوم پر آپ کے لیے یہ چیز بھی رہنمائی کا کام دیتی ہے کہ حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ میں درخت کی جڑ کو چبانے کے حکم سے مراد ظاہری معنیٰ نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
[1] اس کی تخریج آگے ’’ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا منہج علمی تھا؟‘‘ والے عنوان کے تحت آرہی ہے۔