کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 220
سوال کیا تو انہوں نے اسے یہی وصیت کی: جماعت کو لازم پکڑ لو کیوں کہ اللہ تعالیٰ امت محمدیہ کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا۔ ‘‘ بعض علماء کہتے ہیں : ’’ جماعت سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں نہ کہ ان کے بعد والے لوگ۔ ‘‘ بعض کہتے ہیں : ’’جماعت سے مراد اہل علم ہیں ۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مخلوق پر حجت بنایا ہے اور لوگ دین کے معاملے میں ان کے تابع ہیں ۔ ‘‘ درست بات یہ ہے کہ حدیث سے مراد ان لوگوں کی جماعت کے ساتھ منسلک ہونا ہے جو مسلمانوں کے متفقہ امیر کی اطاعت میں ہوں ۔ لہٰذا جو اس امیر کی بیعت کو توڑے گا وہ جماعت سے نکل جائے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب لوگوں کا ایک امام نہ ہو اور وہ گروہوں میں بٹ چکے ہوں تو کوئی شخص کسی بھی فرقے کے پیچھے نہ چلے البتہ اس میں اگر استطاعت ہو تو وہ شر میں واقع ہونے کے ڈر سے سب فرقوں سے الگ ہو جا ئے۔ تمام احادیث میں جو کچھ بھی آیا ہے وہ اسی پر دلالت کرتا ہے اور اسی صورت میں بظاہر اختلافی روایات کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ مسلمان پر واجب ہے کہ ان جماعتوں کی ان معاملات میں مدد کرے جو حق ہیں ۔ اور مسلمان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہاں ان باتوں میں ان کی خیر خواہی اور راہنمائی کرے جن میں (یہ جماعتیں ) حق کی مخالفت کرتی ہیں یا حق تک پہنچنے میں قاصر رہی ہیں ۔ اور ان جماعتوں پر واجب ہے کہ یہ ان باتوں میں باہم ایک دوسرے سے تعاون کریں جن کے درست ہونے پر سب کا اتفاق ہو اور اختلافی مسائل میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں ۔ اوراللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ انہیں اس مسئلہ میں صراط مستقیم کی ہدایت دے۔ [1]
[1] برعکس جماعتی اصول کے کہ: ’’ اتفاقی باتوں میں ہم ایک دوسرے کا تعاون کریں گے لیکن اختلافی مسائل میں ہم ایک دوسرے کو معذور سمجھیں گے۔ ‘‘ اس قاعدے کے نقصان اور خطرے کو بھائی حمد العثمان حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ زجر المتہاون بضرر قاعدۃ العذر والتعاون ‘‘ میں فصاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ مسلمانوں پر نیکی اور تقویٰ کے معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا شرعی طور پر واجب ہے بالخصوص دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے۔ اور یہ تعاون صرف دو بنیادوں پر مکمل ہوسکتا ہے۔ (۱) سلف صالحین کا منہج۔ (۲) گروہ بندی کو ترک کرنا۔ رہی یہ بات کہ ہر جماعت اور فرقہ سلف کے مخالف اپنے عقائد پر قائم بھی رہے اور اس کا دوسروں سے الگ مستقل ڈھانچہ بھی ہو تو ایسا تعاون پھر یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح کا ہوگا کہ: ﴿تَحْسُبُہُمْ جَمِیْعًا وَّقُلُوْبُہُمْ شَتًّی﴾ … ’’ اے پیغمبر! آپ انہیں متحد سمجھتے ہیں حالانکہ ان کے دلوں میں اختلاف ہے۔ ‘‘ رہی اہل سنت کے نام سے منسوب بعض لوگوں کی اس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش (حالانکہ وہ سلفیت کی سچی دعوت ہے) تو آپ ان کے دھوکے میں نہ آئیں ۔ کیوں کہ ان کی باتیں شہد کی طرح ہیں لیکن منہج سلف رکھنے والے علماء کے بارے میں ان کے موقف نیزوں کی طرح ہیں ۔