کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 213
لیکن اندر خانے یہ ہلاکت خیز دور ہو گا۔ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا: (( وَسَیَقُوْمُ فِیْہِمْ رِجَالٌ قُلُوْبُ الشَّیَاطِیْنِ فِیْ جُثْمَانِ اِنْسٍ۔)) ’’عنقریب مسلمانوں میں ایسے لوگ اٹھیں گے جو انسانی جسموں میں شیطانی دل رکھتے ہوں گے۔ ‘‘ یہ چیز بہت سے ایسے لوگوں کو دھوکہ دیتی ہے جو محض چیزوں کی ظاہری حالت کو دیکھتے ہیں اور باتوں کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر رہتے ہیں ۔اسی وجہ سے وہ خرابی کو شروع سے ہی درست کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ چنانچہ انسانی جسموں میں شیطانی دل والی یہ شکل انتہائی فاش قسم کی صورت اختیار کر جا تی ہے اور پھر پیوند لگانے والے کے لیے سوراخ بہت بڑھ چکا ہو تا ہے۔ یہ ’’دخن ‘‘ (دین میں نفساتی خواہش والا میلا پن) خیر کا قاتل بن کر بڑھتا جا ئے گا حتی کہ اس پر چھا جا ئے گا تو پھر خالص شر کا مرحلہ آجا ئے گا اور گمراہی کا پر چار کرنے والوں اورگمراہ فرقوں کا آغاز ہو جائے گا۔ بلاشبہ فتنہ و فساد کے سرخیل بڑی مستعدی اور چالاکی سے اپنا کام کر رہے ہیں ۔ جب کہ اہل حق غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ۔ دلیل یہ ہے کہ مذکور بالا ’’ دخن‘‘ … دُھواں نما دُھند… بہت بڑھ گئی ہے۔(عام مسلمانوں کے لیے حق اور باطل کی پہچان کرنا مشکل ہو گیا ہے۔) حتی کہ یہ دُھند حق اور اہل حق پر غالب آگئی ہے۔ اس دھند (شکوک و شبہات کے دھویں ) نے مسلمانوں کی عزت کو خاک میں ملا ڈالا ہے۔ اسی لیے اہل ایمان و اسلام کی قیادت و سیادت والے اُمور نے اعلیٰ صفات والے جلیل القدر مردوں کے پیدا ہونے کے اعتبار سے کم پیداوار والے ان سالوں میں اپنی لگامیں بھی اصطبلوں میں پھینک دی ہیں ۔ مسلمانوں کی حکومت و سیاست کا معاملہ نااہل لوگوں کے سپرد کر دیا گیا ہے اور حق کو ناجائز جگہ پر رکھ دیا گیا ہے۔ سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :