کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 210
’’اس کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ بظاہر ہماری ملت پر، لیکن اندرونی طور پر اس کے مخالف ہوں گے۔ کیوں کہ کسی چیز کی جلد اس کے ظاہر کو کہتے ہیں ۔ اصل میں یہ لفظ جسم کے لباس پر بولا جاتا ہے۔ ‘‘ ایک قول یہ ہے کہ : ’’اس سے عرب مراد لینے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ عربوں پر گندمی رنگ غالب ہوتا ہے۔ اور رنگ جلد پر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ ‘‘ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں : (( وَسَیَقُوْمُ فِیْہِمْ رِجَالٌ قُلُوْبُ الشَّیَاطِیْنِ فِیْ جُثْمَانِ الْاِنْسِ۔)) [1] ’’ عنقریب ان (مسلمانوں ) میں ایسے لوگ اٹھیں گے جن کے انسانی جسموں میں شیطانی دل ہوں گے۔ ‘‘ اور یہ دوسری علامت ہے جس کے ذریعے انکی پہچان ہو گی۔ چنانچہ یہ ایسے لوگ ہوں گے جو امت کی اصلاح ، عظمت ، استحکام اور تشخص کو بحال کرنے کی خواہش ظاہر کریں گے، لوگوں کو اپنی باتوں سے راضی کرلیں گے لیکن ان کے دل صرف اور صرف اسی نظام کو نافذ کرنا پسند کریں گے جس کی تعلیم و تربیت انہوں نے صلیبی اور یہودی آقاؤں سے حاصل کی ہو گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ﴾ (البقرہ:۱۲۰) ’’اور آپؐ سے یہودو نصاریٰ اس وقت تک راضی نہیں ہو ں گے جب تک آپؐ ان کی ملت کی پیروی نہ کرنے لگیں ۔ ‘‘ ان کے فرنگی اور یہودی آقا اسی چیز کی تربیت دیتے ہیں اور اسی نظام کو (ان کے)
[1] صحیح مسلم (۱۲/۳۳۶۔ ۳۳۷۔ نووی)۔