کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 208
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ تم میں سے (۵۰کے برابر)۔ ‘‘[1] ۲۔ ہمارے قلعے اندر سے گرائے جا رہے ہیں کفر کے اماموں نے اپنے زہریلے اثرات ڈالنے کے لیے امت مسلمہ کے اندر ہی مراکز قائم کیے[2] تاکہ حقائق ان کی آنکھوں سے اوجھل رہیں ، وہ معاملات سے بے خبر رہیں ، گمراہ ہوجائیں اور اس لیے کہ کہیں امت مسلمہ مہلک جراثیم سے لت پت اپنے جسموں میں داخل ہونے والی سوئی کی چبھن سے بیدار نہ ہو جائے۔ لہذا اس گندے مرض کی علامات ایک طویل مدت کے بعد ہی ظاہر ہو ں گی۔ تب ڈاکٹروں کے لیے اس پر قابو پانا مشکل ہو جا ئے گا اور دانش ور حیران رہ جا ئیں گے۔ [3] یہ مراکز جو اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی طرف سے سکھائی گئی باتیں کرتے اور وہی چیز مسلمانوں میں داخل کرتے ہیں جو جہنم کی طرف لے جانے والے قائدین انہیں دیتے ہیں ۔ وہ ہم میں سے ہی ہیں ، ہماری زبان بولتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہماری امت کی اصلاح کے تمنائی ہیں اور اس کی تہذیب کے احیاء کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ الغرض امت مسلمہ کے جسم میں ان جراثیم کو داخل کرنے والے لوگ مسلمانوں میں سے
[1] ابو نعیم نے اسے ’’ حلیۃ الأولیاء ‘‘ جلد: ۸، ص: ۴۹ پر بیان کیا ہے اور اس کی سند میں کلام ہے۔ میں نے اس کی سند کو اپنی کتاب ’’القول المبین فی جماعۃالمسلمین‘‘ میں صحیح کہا تھا۔ پھر مجھے اس کے ضعف کا علم ہو گیا تو میں نے اس کی وضاحت اپنی کتاب ’’ القا بضون علی الجمر ‘‘ کے صفحہ نمبر ۲۱، ۲۲ پر کردی۔ اور یہاں میں نے اسے تاکید اً اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ میری ذمہ داری ختم ہو جائے اور میرا رب میری غلطی معاف کر دے۔ یہی علم کی امانت ہے جو اللہ تعالیٰ کا ہم پر قرض ہے۔ [2] اللہ کے دشمنوں کا یہ مقصد دو طرح سے پورا ہوا: (۱) ابتعاث کے ذریعے (تعلیم کے نام پر ذہنوں میں زہر بھرنا):اور وہ طریقہ جو محمد علی نے اختیار کیا اور اس کے بعد آنے والے اسی پر آگے بڑھے اور وہاں مسلمانوں کے بچوں کی برین واشنگ مکمل ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے گھروں میں آکر وہی کچھ لاگو کرتے ہیں جو انہوں نے دیکھا اور سنا ہوتا ہے۔ [3] استشراق: مستشرقین علمی بحث اور تحقیق کے نام پر اسلام میں اعتراضات کے ذریعے سے صلیبی یہودیوں کی سازشوں کو کامیاب کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔