کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 206
تحریف ،تأویل اور فساد ڈالنے کی ٹھانی۔ نتیجتاً قرآن صرف لکھنے ، پڑھنے کی حد تک، جب کہ اسلام صرف نام کا اور عبادات کا صرف ڈھانچہ ہی باقی رہ گیا ہے۔ [1] اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بدعت کا معاملہ بڑا خطرناک ہے۔ کیوں کہ یہ دل اور جسم دونوں کو خراب کرتی ہے جب کہ دشمن صرف جسموں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ اسی لیے سلف صالحین کے فتاویٰ اس بات پر متفق ہیں کہ اہل بدعت سے جہاد اور قطع تعلقی واجب ہے۔ مؤرخ اسلام امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی بہترین کتاب ’’سیر اعلام النبلاء ‘‘ جلد ۷ صفحہ ۲۶۱پر سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’جو شخص جان بوجھ کر بدعتی آدمی کی بات توجہ سے سنے وہ اللہ تعالیٰ کی (حفاظت) سے نکل گیا اور اپنے نفس کے سپرد کر دیا گیا۔‘‘ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا ہی ایک اور قول ہے: لکھتے ہیں ’’جو شخص کسی بدعت کے بارے میں سنے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو اس بدعت کے متعلق مت بتائے ، ان کی توجہ اس طرف مبذول نہ کروائے۔ ‘‘ پھر امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اکثر اسلاف اس قدر ڈراتے ہیں ؛ ان کا خیال ہے کہ دل کمزور ہو تے ہیں اور شبہات ان میں جلدی داخل ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘ میں کہتا ہوں : امام ذھبی رحمہ اللہ نے بالکل درست ، سچ اور خیر خواہی کی بات فرمائی ہے۔ اسی وجہ سے امت مسلمہ تمام قافلۂ انسانی سے پیچھے رہ گئی ہے۔ ہر فسادی کی مطیع ہو گئی ہے، اس کی سر زمین پر باطل باوجود کمزور ہونے کے گدھ کی طرح چمٹ گیا ہے اور اس کے معاملات میں ہر منافق اور بے دین ٹانگ اڑانے لگ گیا ہے۔ اسلاف کے بعد ایسے نااہل لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے خواہشات کی پیروی کی اور جنہیں ان کے شبہات نے تھکا دیا ہے۔ اسی لیے ان کے دلوں میں وہن کی بیماری گھر چکی
[1] یعنی روح باقی نہ رہی۔ (مترجم)