کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 204
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری جلد نمبر ۱۳،ص۳۶پر فرماتے ہیں : ’’اس سے مراد کینہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد عیب ہے۔ ایک اور قول یہ ہے کہ اس سے مراد دل کی خرابی ہے۔ لیکن یہ تینوں معنیٰ قریب قریب ہیں ۔‘‘ لہٰذا (اس میں ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو خیر ، شر کے بعد آئے گی وہ خالص نہیں ہو گی بلکہ اس میں گدلا پن ہوگا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ دخن سے مراد ’’دخان‘‘ (دھواں ) ہے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرافات والی پراگندگی کی طرف اشارہ فرمایاہے۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’دخن ‘‘ہر ناپسندیدہ کام کو کہتے ہیں ۔ ‘‘ ابو عبید رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث کے معنیٰ کی وضاحت ایک دوسری حدیث کرتی ہے کہ (( لَا تَرْجِعُ الْقُلُوْبُ عَلیٰ مَا کَانَتْ عَلَیْہِ۔ )) ’’دل اپنی پہلے والی (ایمان کی)حالت کی طرف نہیں لوٹ سکیں گے۔ ‘‘ اصل میں یہ لفظ اس جانور پر بولا جاتا ہے جس کے رنگ میں مٹیالا پن ہو۔ تو گویا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ آپس میں دل ایک دوسرے کے لیے صاف نہیں ہوں گے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے شرح صحیح مسلم جلد ۱۲ص۲۳۶پر ابو عبید کا مذکورہ قول نقل کیا ہے۔ امام بغوی رحمہ اللہ ’’شرح السنہ‘‘ جلد ۱۵ص۱۵پر لکھتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((فِیْہِ دَخنٌ )) کا معنی یہ ہے کہ وہ خالص خیر نہیں ہوگی بلکہ اس میں دھندلاہٹ اور اندھیرا ہوگا۔ اور دخن کا اصلی معنیٰ ’’جانور کے رنگ میں سیاہی مائل مٹیالا پن ہے۔ ‘‘ اور عظیم آبادی رحمہ اللہ نے عون المعبود جلد۱۱صفحہ۳۱۶پر ملا علی قاری کا قول نقل کیا ہے کہ: ’’ اصل میں ’’دخن ‘‘مٹیالے اور سیاہی مائل رنگ کو کہا جاتاہے۔ تو حدیث مذکور میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس خیر میں (کچھ ) خرابی ہو گی۔ ‘‘ میں کہتا ہوں : ان شروحات سے نتیجتاً یہ دو باتیں سامنے آتی ہیں : ۱… یہ دور خالص خیر کا نہیں ہو گا بلکہ اس میں میل ہو گی جو خیر کے مزہ کو کر کرا کر دے گی۔