کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 202
قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صِفْھُمْ لَنَا ۔ قَالَ : ’’ھُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا ، وَیَتَکَلَّمُوْنَ بِأَلْسِنَتِنَا ‘‘۔ قُلْتُ : فَمَا تَأْ مُرُنِیِ اِنْْ أدْرَکنِی ذلکَ ؟ قَالَ : ’’ تَلْزمُ جَمَاعَۃَ الْمُسلِمیْنَ واِمَا مَھُمْ‘‘۔ قُلْتُ : فَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَھُمْ جَمَا عَۃٌ وَلَا اِمَامٌ ؟ قَالَ : ’’فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّھَا ، وَلَوْ تَعَضَّ بِأصْلِ شَجَرَۃٍ حَتَّی یُدرِکَکَ الْمُوْتُ وَأَنْتَ عَلیٰ ذٰلِکَ۔)) ’’ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں شر کے متعلق پو چھا کرتا تھا ، اس ڈر سے کہ کہیں وہ مجھے نہ آلے۔ سو (ایک دن ) میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم جہالت اور شر میں تھے اور اللہ تعالیٰ یہ خیر (توحید و سنت والا دین حنیف)لے آئے، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں ۔ میں نے پوچھا : تو کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہوگی ؟ فرمایا : ہاں اور اس (خیر ) میں دخن ہو گا۔ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! اس کا دخن کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی قوم جو میرے طریقے کے علاوہ طریقہ اختیار کرے گی اور میری ہدایت کے بغیر راہنمائی کرے گی۔ تو ان میں اچھی باتیں بھی پائے گا اور بری بھی۔ میں نے عرض کیا: تو کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہوگا؟ فرمایا: ہاں (پھر ایک ایسا دور آئے گا جس میں ) جہنم کے دروازوں پر جہنم کی طرف بلانے والے (کھڑے) ہوں گے۔ جو ان کی دعوت قبول کرے گا وہ