کتاب: نجات یافتہ کون - صفحہ 199
’’جب اللہ تعالیٰ تمہیں فارس اور روم کی فتح نصیب فرمائے گا تو تم کیسی قوم بنو گے؟ (یعنی تمہارا رویہ کیا ہوگا؟) تو عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: ہم ویسے ہی کریں گے جیسے ہمیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ [1] تو پیغمبر گرامی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا تم اس کے علاوہ کچھ اور کرنے لگو گے؟’’ تم آپس میں مقابلہ کرنے لگو گے ، ایک دوسرے سے حسد کرنے لگ جاؤ گے ، ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے برائی بیان کرو گے، باہم حسد کا شکار ہوجاؤ گے۔ یا اسی طرح کی دوسری بُری عادات۔ پھر تم مسکین مہاجروں میں جاؤ گے اور ایک دوسرے کی گردن ماروگے۔ ‘‘[2] اسی لیے جب کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے تو امیر المؤمنین سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا : (( اِنَّ ھٰذا لَم یُفْتَحْ عَلیٰ قَوْمٍ قَطُّ اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ بَأسَھُمْ بَیْنَھُمْ۔)) ’’ بے شک کسی قوم کو اس (خزانے) پر فتح نہیں دی گئی، مگر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان لڑائی کرادی۔ ‘‘ ٭…اس حدیث مبارکہ سے دسواں اشارہ یہ ملتا ہے کہ کفار امت مسلمہ کو کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں کر سکیں گے خواہ وہ تمام اطراف و اکناف سے اکٹھے ہو کر حملہ کریں ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ جمع ہو چکے ہیں ۔ اور یہ بات حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اِنَّ اللّٰہَ زَوی لِیَ الأَرْضَ ؛ فَرَأَیتُ مَشَا رِقَھَا وَ مَغَارِبَہا، وَاِنَّ اُمَّتِیْ سَیَبلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِی مِنْھَا، وَ أُعْطِیْتُ الْکَنْزَیْنَ
[1] یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں گے، اس کا شکر کریں گے اور اس سے مزید فضل مانگیں گے۔ نووي: ۱۸/ ۹۶۔ [2] صحیح مسلم ، حدیث: ۲۹۶۲۔